یہ تخصیص کیوں؟
یہ تخصیص کیوں؟
ذکیہ فرحت
ملالہ پاکستانی قوم کی بیٹی جو نہ صرف معصوم ہے بلکہ مظلوم بھی بنا دی گئی ہے۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں بین الاقوامی پلیٹ فارم سے جس کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔ بیانات‘ مضامین‘ کالم سے سارے اخبارات بھرے پڑے ہیں جن کا ایک ہی موضوع ہے اور ایک ہی مقصد کہ ملالہ کو ہر طرف سے انتہائی مظلوم قرار دے کر اپنا مطلب نکالا جائے اور اسے بہانہ بنا کر اپنا مشن پورا کیا جائے اور وہ مشن پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔
ملالہ کو لگنے والی گولی نے نہ صرف پوری قوم کو ملول کیا بلکہ عظیم امریکا کا عظیم صدر بھی انتہائی مصروف ہونے کے باوجود ملالہ کے ملال میں مبتلا ہوگیا اور اس کا دل ملالہ کے دل کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ کتنی خوش نصیب ہے پاکستانی قوم کی یہ بیٹی جو اتنی کم عمری میں صرف ایک طالبہ ہونے کی حیثیت سے عالمی شہرت کی حامل ہے بلکہ اب عالمی دن یوم ملالہ کے نام سے منایا جائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالب علم اور اس کا شوق قابل قدر چیز ہے‘ اس کا حصول اور تکمیل اگر ایک مشن ہے تو یہی مشن تو لال مسجد میں بھی جاری تھا وہاں تو ایک نہیںبہت ساری ملالائیں جو طالبہ ہی تھیں اور طلب علم ہی کی خاطر اس درس گاہ میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا مشن بھی تو یہی تھا کہ وہ علم کے ایک چراغ سے بہت سارے چراغ روشن کریں گی جو حصول علم کی خاطر اپنے والدین اور عزیزوں کی جدائی برداشت کرکے اپنے مشن کی تکمیل میں لگی ہوئی تھیں مگر انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا جن کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ اس حال میں کہیں ان کے بالوں کی چوٹیاں کہیں ہاتھوں کی انگلیاں کچرے کے ڈھیر اور نالوں میں پائی گئیں جن کے نالۂ و فریاد پہ کوئی آواز نہ اٹھی‘ کوئی دل نہ دھڑکا۔ صدر امریکا اوباما کا دل ملالہ کے ساتھ دھڑک رہا ہے کیا ان کے لیے ایک بار بھی دھڑکا تھا؟ کیا ہیلری کلنٹن ان طالبات کے لیے بھی اسی طرح بے قرار ہوئی تھیں؟ مگر نہیں کیونکہ وہ دشمن کی آلۂ کار نہیں تھیں اس لیے ان کی درس گاہ کو مقتل بنا دیا گیا اور وہ مقتول ہو کر بھی مظلوم نہ بن سکیں۔ ملالہ اب روبہ صحت ہے اور ہونا بھی چاہیے پوری قوم اس کے لیے دعا گو تھی مگر وہ گولی جو خطا کر گئی اسے خطا ہی ہونا تھا۔ مقصد تو دراصل اسے شہرت دینا اور اس پردے میں اپنا کھیل کھیلنا تھا ورنہ کوئی ان ماہر نشانہ بازوں کے نشانوں سے بچ نہیں پایا۔ درجنوں اموات روزانہ ہورہی ہیں‘ چڑیوں اور پتنگوں کی طرح لوگ نشانہ بن رہے ہیں مگر نہ قاتل پہچانے گئے نہ پکڑے جاتے ہیں۔
بھول جایئے لال مسجد کی طالبات کو جن کی میت بھی نشانی کے لیے باقی نہ رہی جن کے والدین زندہ درگور ہوگئے۔ مگر ’’عافیہ‘‘ بھی تو اس قوم کی بیٹی ہے جو امریکی جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہی ہے جس کی زندگی کو 80 سال کی سزا دے کر مردہ بنا دیا گیا ہے اس کی زندگی کو بچانے کی کوئی فکر نہیں۔ اس کو اس اذیت سے بچانے والا کوئی نہیں۔ اس پر تشدد درندگی سے تنگ آئی ہوئی عافیہ کو عافیت دلانے والا کوئی نہیں۔ اس کے لیے کسی صدر اوباما کا دل نہیں دھڑکتا‘ کسی وزیر خارجہ کو ان امور کی انجام دہی کا خیال نہیں آتا‘ اس کے لیے کوئی عالمی دن منانے کا اعلان نہیں ہوتا۔ وہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ایک ساتویں کلاس کی طالبہ تو امریکا کو بہت عزیز ہے پھر عافیہ تو ڈاکٹر ہے سب کو معلوم ہے کہ ایک ڈاکٹر کتنی مشکل سے تیار ہوتا ہے اور کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ عافیہ کا مشن بھی عالمی سطح پر علم کا ارتقاء ہے پھر یہ تخصیص کیوں؟ قوم یہ سوال کرتی ہے اور جواب ان سب پر واجب ہے جو ملالہ کے سرپرست بنے ہوئے ہیں کہ آخر یہ فرق کیوں؟
Original article Post Jasarat website http://www.jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-02-17