Invitation to Quran : Saad ullah Shah
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا فون آیا کہ وہ لاہور آئی ہوئی ہیں اور مجھے ملنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بیٹا احمد بھی ہے۔ مجھے بھی تجسس تھا کہ ذہین و فطین اور عظےم ماں کا بیٹا کیسا ہے؟ جب عافیہ صدیقی کوکراچی ائیرپورٹ آتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا تو اس وقت احمد صرف پانچ سال کا تھا۔ چھوٹا بیٹا صرف چھ ماہ کا تھا جس کا اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ میں ہوٹل پہنچا اور 440 نمبر روم کی بیل دبائی تو ایک جوان رعنا نے دروازہ کھولا، سلام کیا اور اندر آنے کو کہا۔فوزیہ صدیقی نے چھوٹتے ہی اس کا تعارف کروایا ”یہ احمد ہے“ میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ پتہ چلا کہ اس نے او لیول کر لیا ہے اور اب اے لیول میں گیا چاہتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ قرآن پاک حفظ کر چکا ہے۔ قرآن کے ساتھ اس خاندان کی والہانہ وابستگی ہے۔ خود عافیہ صدیقی حافظ ہیں۔ عافیہ کے والد محترم نے مولانا مفتی شفیع کے معارف القرآن کا انگریزی ترجمہ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کا بیٹا اسد جو ساتھ تھا بھی ستائیسواں پارہ حفظ کر رہا ہے۔
میں نے آمنہ الفت کو بھی فون کر دیا۔ وہ بھی احمد کو دیکھنے ہوٹل پہنچ گئیں۔ گپ شپ ہونے لگی۔معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ایپی لیپسی (Epilepsy) کے حوالے سے ایک دوا کی تقریب پذیرائی میں مہمان خاص ہیں اور انہیں بیماری کے حوالے سے لیکچر دینا ہے۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ وہ نیوروسرجن ہیں اور بہت لائق فائق ہیں۔ ان کا یہ پہلو پہلی مرتبہ سامنے آیا کہ وہ ایپی لیپسی Epilepsy پر اتھارٹی ہیں اور ایپی لیپسی فاﺅنڈیشن پاکستان کی صدر ہیں۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ ایپی لیپسی جسے عرف عام میں مرگی کہتے ہیں ایک ذہنی بیماری ہے جس میں مریض کو خود پر قابو نہیں رہتا۔ وہ گر جاتا ہے تو اس کے ہاتھ پاﺅں مڑ جاتے ہیں اور اسے فٹس یعنی دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ قابل علاج بیماری ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ لوگوں کو آگہی نہیں۔ پاکستان میں 2 فیصد لوگ اس کا شکار ہیں۔ شہروں میں تو لوگ کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔ گاﺅں وغیرہ میں اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں۔ وہاں جہالت اور توہم پرستی کے باعث اکثر لوگ مریض کو عاملوں‘ پیروں‘ فقیروں یا بابوں کے پاس لے جاتے ہیں جو اکثر متاثرہ شخص کے اندر کوئی جن دریافت کر لیتے ہیں۔ بعض تو ایسے خوفناک عامل بھی ہیں جو جن سمیت مریض کو بھی تشدد کر کے مار دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس کے مریض کو فٹس کی صورت میں جوتا سنگھاتے ہیں یا اس کی تلیاں ملتے ہیں یا کوئی گرم شے کنپٹی پر لگاتے ہیں۔ اصل میں مریض کے دماغ میں کوئی سپاٹ آ جاتا ہے جہاں سے میسج پاس نہیں ہوتا۔ اس مرض کے 70 فیصد مریضوں کا علاج دوائی سے ممکن ہے۔ بعض کے لئے سرجری ضروری ہوتی ہے۔ اس کے بہت کم مریضوں کیلئے دوسری Devicesہیں۔ یہ بیماری نہ جانے کتنی صدیوں سے موجود ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ڈاکٹرہارون رشید نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر The Christفلم دکھائی تھی۔ اس میں بھی اس ایپی لیسپی کے مریض تھے۔کچھ کیسز میں یہ بیماری موروثی بھی ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ دھان پان کی نستعلیق خاتون کس قدر ان تھک اور محنتی ہے۔ اپنے چھوٹی بہن عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اس نے پوری ایک تحریک چلا رکھی ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور لاتعلقی کے باوجود اس نے امریکہ کی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس نے ان تہذیب کے دعویداروں کے تعصب اور نفرت کو بری طرح دنیا کے سامنے آشکار کر دیا۔ اس نے بنیادی انسانی حقوق کی بنیادپر عالم اسلام ہی کو نہیں عالمی برادری کو بھی جھنجھوڑا۔ وہ بتا رہی تھیں کہ وہ ابھی جنوبی افریقہ کی حکومت کے لوگوں سے مل کر آئی ہیں کہ انہوں نے اسے مدعو کیا تھا اور اس نے اسمبلی کے سامنے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بریفنگ بھی دی۔ نینس منڈیلا کے ان پیروکاروں نے عندیہ دیا کہ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیاد پر عافیہ کے کیس کی حمایت کریں گے۔ آجکل فوزیہ نے امریکہ میں عافیہ کے کیس کو دوبارہ کھلوایا ہے اور امریکی عدلیہ نے دوبارہ اسی جج کو وہاں لگا دیا ہے جس نے عافیہ کو 86 سال کی سزا دی تھی۔ دیکھیے اللہ کو کیا منظور ہے۔ فوزیہ ہمت ہارنے والی نہیں۔ وہ بڑے مضبوط اعصاب کی مالک ہے۔ اسے فنڈنگ کے مسائل کا سامنا ضرور ہے کہ امریکہ میں وکیلوں کی فیسیں بھی بہت ہیں مگر وہ پرامید ہے۔
اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں کہ فوزیہ صدیقی نے مجھے ایک سرپرائز دیا کہ مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہی ہوئی ایک نظم Invitation from Prison دی۔ ایک شاعر کیلئے اس سے بڑا تحفہ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے خود عافیہ کے لئے ایک نظم کہی تھی جس کا آخری شعر تھا:
یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ جاری ہے
فوزیہ سے لے کر میں نے وہ نظم پڑھی جس کا عنوان تھا: Invitation from Prison۔ اصل میں یہ Invitation to Queen تھی۔ عافیہ صدیقی نے قرآن کو خود پر طاری کر رکھا ہے۔ اس کا اوڑھنا بچھونا اسی کتاب کی رشدو ہدایت کا پیغام ہے۔ اس کی قرآن فرقان سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امریکہ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں قرآن کا سٹال لگاتی اور وہ لوگوں میں قرآن مفت بانٹتی۔ وہ اقبال کی طرح عرفان رکھتی ہے کہ ہماری ساری رسوائیاں قرآن کو ترک کرنے کے باعث ہیں۔ اسے قرآن پڑھتا دیکھ کر امریکیوں کو وحشت ہوتی تھی اور اسی باعث اس پر بہت تشدد کیا گیا اور قرآن اس سے چھین کر پھینک دیا گیا۔ وہ قرآن کو ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمان اس پر عمل پیرا ہو گئے تو ان کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ عافیہ کا قصور یہی تھا کہ وہ پاکستان میں ایک Islamic education system متعارف کروانا چاہتی تھی۔جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلامیات الگ پڑھانے کی بجائے ہر مضمون کی بنیاد اسلامی ہونی چاہئے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی قرآن فہمی کا فقدان ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے کہ ہم اس کتاب حیات سے دور کیوں ہیں۔ ہم وار امتحان میں ہیں اور نصاب حیات سے نابلد۔ خوش قسمتی سے ہمیں ماہ رمضان میسر آ گیا ہے اور اسی ماہ مبارک میں قرآن کا نزول ہوا تھا۔ یہ سارے مہینوں میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس میں نازل ہونے والی آخری کتاب سب کتابوں سے افضل اور جس پر یہ کتاب اتری وہ رسولﷺ سب سے ممتاز‘ روزے کا اجر بھی اللہ کے پاس ہے۔ نفل‘ فرض کے برابر آ جاتے ہیں اور فرض ستر گنا اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ یہودو نصاریٰ اسی قرآن کے در پے ہیں۔ وہ شعور ہی نہیں رکھتے کہ یہ کتاب مبین ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ہے۔ یہ ان گنت حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے۔ حافظ اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں مصلے سنانے کیلئے جگہ نہیں ملتی۔ اگر قرآن سے رہنمائی حاصل کی جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ قبر میں اور قیامت کے دن قرآن سے بڑا کوئی طرف دار نہیں۔ حضور نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور پڑھایا۔ یہ کائنات کی سب سے بڑی کتاب ہے جو اس کے راز کھولتی ہے۔ قرآن پاک پڑھنا اور سمجھ کر پڑھنا خدا سے ہمکلام ہونا ہے۔ میں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی نظم کو من و عن درج کر دیا ہے۔ ویسے بھی یہ نظم عام فہم انگریزی میں ہے۔ اصل بات نظم کے پیچھے وہ جذبہ¿ انقلاب ہے جو عافیہ کے دل میں موجزن ہے۔
Poem by Dr Aafia Siddiqui
Invitation from Prison
I call you, sir, to what is true,
And that`s because I care for you
I care for your people like you
And pray for them and others too!
To God, to guide us on His way.
To Him I cry and humbly pray.
To keep us firm and in his care.
Let not the fire be our share!
Put paradise in our fate
And guide us now, before it`s too late!
So, I request you, sir, please think,
For we are standing on the brink!
What I say here, please don`t ignore!
Please! As I may not say more.
Think Sir! What if Quran is true,
Then what choices are there for you?
Believe and it will set you free
From the worst of human slavery!
In full devotion, slave of ONE
Free of the rest of every one!
And safe for all eternity!
in total peace, (in) serenity!
Where we have all our heart`s desire
Never to finish, nor expire
It`s that, or an eternal fire!
For disbelief, a torment dire!
My sir, someone as smart as you,
Must read this book, I hope you do!
My sir, someone as nice as you,
Must choose the truth, I pray you do!
The truth from God, and the work of man,
Are mixed up, but cleared in Quran,
God`s final book, preserved and true,
It`s a cure and guidance, mercy too!
It`s like it was written for you!