loader image

Days Passed

6816

AAFIA MOVEMENT

Naujawano Karo Kuch Khuda Ke liye

نوجوانو! کرو کچھ خدا کے لیے

سنگ میل ۔ عبدالحفیظ امیر پوری (شمارہ 440)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ۳۰ مارچ تک افضل البشر بعد الانبیاء حضرت صدیق اکبرؓ سے نسبت رکھنے کے ناطے پوری امت کی بیٹی، ایک ارب بائیس کروڑ مسلمانوں کی بہن، حافظہ ڈاکڑ عافیہ صدیقی کی گرفتاری کو ۱۱ سال مکمل ہو چکے ہیں؟؟؟

 دو مارچ انیس سو بہتر میں کراچی میں پیدا ہونے والی عافیہ صدیقی نے ابتدائی تعلیم کے بعد انیس سو نوے میں امریکہ میں سکونت اختیار کرلی، دوہزار ایک میں امریکی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ دوہزار تین میں وطن واپس آگئیں۔

ٹھیک گیارہ سال قبل 30 مارچ 2003 ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈہ کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت انہیں اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 30 برس تھی۔ ان کے بڑے بیٹے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے بچے کی بمشکل ایک ماہ اور اسے دوہزار دس میں چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

جی ہاں! یہ اس قوم کی بیٹی کی کہانی ہے جو متحدہ برصغیر پر ہزار سال حکومت کرچکی، یہ حکایت اس ملک کی شہری کی ہے جو ایٹمی قوت کہلوانے کی دعویدار ہے۔ جی ہاں! یہ دخترِ پاکستان عافیہ صدیقی کا تعارف ہے۔

گیارہ سال قبل قوم کی بیٹی بیچ دی گئی جب اس قوم کو پرویزمشرف نامی آمر سے پالا پڑاتھا جو اپنے ہی ہم وطنوں کو مکا دکھا کر کہا کرتا تھا ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ پرویز مشرف اقتدار سے الگ ہوا، پیپلز پارٹی کا دور آیا، پیپلز پارٹی کا دور بھی گزر گیا، عافیہ کی رہائی کو منشور کا حصہ بنانے والے نون لیگ کی حکومت کو بھی سال ہونے والا ہے مگر ان کی مجرمانہ خاموشی بھی نہیں ٹوٹ رہی، پاکستان میں بسنے والے 20کروڑ عوام نے بھی اگر اپنی عزت اور اپنی بیٹی کے لیے کچھ کیا ہے تو وہ صرف اور صرف رسمی احتجاج اور چند ایک پلے کارڈز تک محدود رہاہے۔ الغرض اوپر سے لے کر نیچے تک، حکمرانوں سے لے کر عوام الناس تک، سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک، امن وامان قائم کرنے والے قومی اداروں سے لے کر انصاف فراہم کرنے والے اداروں تک، انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر غیر ملکی این جی اوز تک، سب نے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ کے لیے کچھ نہیں کیا، جس پر پوری قوم عافیہ کی مجرم ہے۔

حیرت ہے مسلمانوں پر جو محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی جیسے اسلاف کے جانشین ہیں اور قدرت کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر پھربھی محکوم، مظلوم اور مغلوب ہیں۔ اس سے بڑھ کر ندامت کی اور کیابات ہوگی کہ پاکستان دنیا کے 58 اسلامی ممالک میں سے واحد ایٹمی طاقت ہے اور دنیا کی بہترین فوج رکھتاہے اور اہم محل وقوع کا حامل ہے مگر پھر بھی اپنی ایک مظلوم بیٹی کو آج تک بھیٹریوں سے آزاد نہ کروا سکا؟

آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گھر سے لاپتہ ہوئے گیارہ سال بیت گئے، مگر مجال ہے کہ کسی قومی، بین الاقوامی یا اسلامی حکمران، صدر، وزیر اعظم، وزیراعلی، گورنر، مشیر، وزیر، صنعت کار، بیور وکریٹ، صحافی، وکیل، جج، تاجر، کسان، مزدور اور میڈیا نے مظلوم عافیہ صدیقی کے لیے صحیح طریقے اور خلوص نیت سے کوئی کوشش کی ہو، یا کوئی ایسا کردار ادا کیا ہو جس پر داد دی جائے یا اسے سراہا جائے۔

حکمرانوں کی بات کی جائے تو انہیں اقتدار اور مال ودولت سمیٹنے کی جنگ اورہوس سے فرصت نہیں، وہ تو پانچ سال تک پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں، انہیں عوام کی فکر ہے، نہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے سروکار، بھوک سے بلک بلک کر مرنے والے معصوم بچوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں، نہ آئے روز غربت، بیروز گاری سے تنگ ہوکر خودکشیاں کرنے والے نوجوان نظرآتے ہیں، ملک پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کا خیا ل ہے، نہ اس ملک میں پیدا ہونے والے انسانوں کی جان ومال، عزت وآبر و کی حفاظت کی ذمہ داری سے لین دین۔ وہ تو جب چاہیں جیسے چاہیں اقتدار کی کرسی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں، غدار کمانڈو پرویز مشرف کی طرح انہیں بھی اگر عافیہ صدیقی جیسی قوم کی بیٹیوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا پڑے، ملکی ہوائی اڈے فروخت کرنا پڑیں، تو وہ اس سے ہرگز گریز نہ کریں۔ حکمرانوں سے عافیہ کی رہائی کی امید رکھنا ایک افسانہ ہے اور فی الحال یہ افسانہ حقیقت میں بدلتا نظر نہیں آرہا۔

کتنی شرم اور غیرت کی بات ہے کہ ہماری بیٹی کی رہائی کے لیے دیارِِغیر سے وفود آکر ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ خدارا! اپنی بیٹی کے معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہر ہ کریں۔ نومبر 2012 ء میں سابق امریکی سینیٹر اورعافیہ کی وکیل ٹینا فوسٹر پانچ رکنی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورہ پرآیا اور حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اگر وہ عافیہ کی رہائی کے لیے ایک خط لکھ دیں توعافیہ رہا ہوسکتی ہے۔ مگر افسوس! ملالہ پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اور ملال کرنے والے بے حس، بے ضمیر حکمران اور ملالہ کی خاطر قوم کے لاکھوں روپیے ضائع کرکے لندن جا کر گلدستے پیش کرنے والے صدر پاکستان اب تک عافیہ کے لیے ایک کا غذ کا ٹکڑا نہیں لکھ سکے۔

کہاں ہیں حقوقِ نسواں اور محافظتِ نسواں کے نام پر تقریریں کرنے والے اور ٹی وی کیمروں کے سامنے احتجاج کرنے والے…؟

کہاں ہیں عورت کو آزادی دلانے کیلئے شور مچانے والے…؟

کہاں ہیں اسلامی قوانین کو ظالمانہ قرار دینے والے…؟

کہاں ہے وہ عاصمہ جہانگیر جو اپنے تئیں آزادی نسواں کا بلند پرچم اٹھانے کی دعویدار ہے…؟

بے حسی کی بھی ایک حد ہوتی ہے… یہ جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو بیٹیاں نیلام اور بیٹے بے آرام ہو جاتے ہیں… ماؤں کی عزتیں تار تار… اور باپوں کی قبائے عصمت کے چیتھڑے اڑتے ہیں… بوڑھوں کی لاٹھیاں چھنتی ہیں… اور شیر خواروں کا دودھ بند ہوجاتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آج نہ وہ نظام خلافت ہے اور نہ وہ امام و خلیفہ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کا محافظ ہوتا تھا۔ مدینہ آج بھی موجود ہے لیکن وہ صدیقی، فاروقی، عثمانی وحیدری نظامِ خلافت نہیں جو خالد بن ولید، سعد بن ابی وقاص اور عمروبن العاص جیسے جرنیلوں کے ذریعے ’’جہاد‘‘ جیسے اہم فریضے کو انجام دیا کرتا تھا۔ دمشق آج بھی موجود ہے لیکن وہ اموی خلافت نہیں جو موسی بن نصیر، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے سپہ سالاروں کے ذریعے اسلامی ریاست کو توسیع دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کیا کرتی تھی۔

آج بھی اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کم سہی لیکن الحمد للہ ایسے نوجوان موجود ہیں، جنہوں نے عزت و غلبے والے اس ’’حکمِ جہاد‘‘ کے علَم کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ جنکی فدائی و جہادی یلغار کے سامنے دنیائے کفر اپنی ٹیکنالوجی کے باوجود گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے پہلے بھی امت کو عروج نصیب ہوا  اور آج بھی امت مسلمہ کی عزمت و حرمت اسی حکم میں ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریے ہم  ان شاء اللہ اِن ظالم امریکیوں کو امت مسلمہ کی بیٹی کی رہائی پر مجبورکرنے میںکامیاب ہوجائیں گے اور وہ اپنی ناک رگڑتے ہوئے اپنی بقاوسالمیت کی خاطر ہماری بہن کو رہا کریں گے۔ ان شاء اللہ

نوجوانو! اٹھو اور ان مجاہدین کے پشتیبان بن جاؤ… ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرو… کفر کے لیے دہشت کی علامت بن جاؤ…

اپنی پیاری بہن عافیہ کے لیے

ہاتھ سارے اٹھا دو دعا کے لیے

دستِ قاتل سے اپنا لہو چھین لو!

پنجۂ جبر سے آبرو چھین لو!

نوجوانو! کرو کچھ خدا کے لیے

٭…٭…٭