loader image

Days Passed

6816

AAFIA MOVEMENT

Aik Farz… Aik Qarz –Kalma e Haq(Maulana Muhammad Mansoor Ahmed)

ایک فرض … ایک قرض 

کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 440)

عجیب بات ہے کہ امریکی صدر ہو یا برطانوی وزیر اعظم ‘ ہمارے بڑے میاں صاحب ہوں یا چھوٹے میاں صاحب ‘ جعلی بھٹو اور اصلی زرداری صاحب ہوں یا انصاف خان صاحب ‘ سب ہی پاکستانی خواتین کیلئے سخت پریشان ہیں ۔ وہ پاکستانی خاتون جو پہلے سب گھروں میں اور اب بھی اُن گھروں میں جہاں اسلامی روایات اور مشرقی اقدار زندہ ہیں ‘ بڑے ٹھاٹھ اور عزت کے ساتھ زندگی گزارتی ہے ۔ یہ اُن خواتین کو بھی یورپ کے ڈگر پر چلا کر آزادی کے نام پر بربادی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔

 

پھر اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب دو غلے لوگ ‘ ایک ایسی پاکستانی خاتون کے بارے میں کچھ نہیں کہتے جسے کل ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۴ ء کو امریکی قید میں گیارہ برس مکمل ہو چکے تھے ۔ وہ نجانے روزانہ کتنی مرتبہ جیتی ہے اور کتنی مرتبہ مرتی ہے … جیل کی آہنی کھڑ کیوں کے پیچھے سے جھانکتی وہ پاکستانی خاتون جسے ڈالروں کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا ‘ آج اُس کی بے بسی کی داستان ہمارے سیاستدانوں ‘حکمرانوں ‘ عہدیداروں ‘ صحافیوں ‘ دانشوروں اور خواتین کی آزادی کے نام پر پلنے والی این جی اوز کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ سخت اور زناٹے دار طمانچہ ۔

کیا ان لوگوں کی نظر میں صرف وہ ہی خواتین ہیں‘ جو ایک وقت میں ہزار ہا روپے کا جوڑاپہن کر غیر مردوں کے سامنے ان کی نمائش کرتی ہیں ‘ جو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے کیمروں کے سامنے اسلامی احکام کا تمسخر اڑاتی ہیں ‘ جو لاکھوں روپے یومیہ کے ہوٹلوں میں ’’ عورت کی مظلومیت ‘‘ پر سیمینار سے بلا تکلف خطاب کرتے ہوئے اپنی قومی و ملی اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہیں ‘ جو ملّا اور مولوی کو کوسنے دینا تو اپنا فرض سمجھتی ہی ہیں لیکن اکبر الہ آبادی مرحوم اور اقبال مرحوم کو بھی اُن کے فرنگی تہذیب کے خلاف اشعار کی وجہ سے رجعت پسند اور دقیانوس قرار دیتی ہیں ۔

ہاں ! وہ ایک بیٹی … پاکستان کی بیٹی … ایک بہن … جس کی بہن بھی آج … اُس کی آزادی کیلئے … سڑکوں ‘ چوراہوں میں نکلنے پر مجبور ہے … ایک ماں … جس کے تین بچے … اُس کو نہیں معلوم کہ… زندہ ہیں یا مردہ … گھر پر ہیں یا اغواء کر لیے گئے ہیں … وہ ان کے نزدیک کسی حق کی مستحق ہے ‘ نہ آزادی کی حق دار …

حکمرانوں کو تو چھوڑیں کہ ان کو ملک و قوم سے جتنی محبت ہے ‘ سب کو معلوم ہے ۔ ان کے چڑیا گھر کا پالتو مور مر جائے تو ایسا زبردست اور فوی ایکشن ہوتا ہے کہ صحرائے تھر کے معصوم بچے بھی رات کو مائوں سے پوچھتے ہیں کہ اماں ! ہم انسان کیوں ہیں ؟ رائے ونڈ کے چڑیا گھر کے مور کیوں نہیں کہ ہمارے مرنے پر بھی کسی کے دل پر آرے چلتے ‘ کوئی آنکھ بھیگتی یا کسی کی رات کرب اور بے چینی کی نذر ہو جاتی ۔

مگر آج پوری قوم کوکیا ہو گیا؟کیا انہوں نے بھی عورت کی آزادی کا مطلب صرف اس کے دوڑنے اور چھلانگیں لگانا ہی لے لیا۔کیااب حقوق نسواں کا ان کے ہاں یہی مفہوم رہ گیا کہ کچھ مادرپدر آزاد قسم کی لڑکیوں کی کھیل کی ٹیمیں بنیں اور ملکوں ملکوں قومی غیرت کا جنازہ نکالتی پھریں ۔ مسلمان بھائی تو کبھی یوں اپنی بہن کو کفار کی قید میں دے کر سکون کی نیند نہیں سویا کرتے تھے ۔

معتصم باللہ اور محمد بن قاسم کا تو نام لیتے ہوئے بھی اب اپنے آپ سے عار محسوس ہونے لگتی ہے، لیکن اے کاش! کہ ہم نے اس سلسلے میں کفار سے ہی کچھ سبق سیکھ لیا ہوتا ۔ دنیا بھر میں کہیں ان کے شہری پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے ‘ وہ انگاروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک بھارتی خاتون سفارت کار کو جب امریکہ میں گرفتار کیا گیا تو پوری دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے سخت ترین ردّعمل کا اظہار کیا اور بالآخر امریکی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

قوم کے ان تمام طبقات کی بے حسی اور بے رخی کے باوجود اب بھی ایک طبقہ ہے جو قیدیوں کے بارے میں قرآن و حدیث کے احکام پر سر دُدھنتا ہے ۔ اب بھی ایسے جوان ہیں جو اپنی جوانیاں اپنی بہن کی عزت پر قربان کر چکے ہیں ۔ جو اپنا مقدس لہو اپنی بہنا کے اُس دوپٹے کے نام کر چکے ہیں ‘ جو کفار نے تار تار کر دیا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ بھائی وہ ہی ہوتے ہیں‘ جو اپنی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں ۔ شاید ایسے ہی جوانوں کو دیکھ کر اقبال مرحوم نے کہا تھا :  ؎

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو یا دیگر اسیرانِ اسلام ‘ اتنی بات طے ہے کہ اپنے دیس میں بسنے والے ان پردیس کے باسیوں کا غم والم نہیں سمجھ سکتے ۔ آرام دہ اور نرم و گداز بستروں پر لیٹنے والے ، سخت اور سرد فرش پر سونے والوں کا تصور نہیں کر سکتے ، وسیع اور کشادہ مکانات کے مکین ان قبر نما ۴x۴ فٹ کی کوٹھڑیوں میں مقیم لوگوں کا درد نہیں بانٹ سکتے ، مگر اپنوں سے اتنی بے اعتنائی ، وفاداروں سے اتنی بے وفائی اور آشنائوں سے اتنی کج ادائی تو کبھی مسلمانوں کی عادت اور فطرت نہ تھی ۔

قرآن مجید میں اللہ جلَّ جلالہ کا ارشاد گرامی ہے :

’’ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے ، ان کمزوروں کی خاطر جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعاکر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں ۔ ‘‘ ( النساء ۔۷۵)

معروف مفسر امام محمد المالکی القرطبی ؒ اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کروائیں ، خواہ وہ قتال کے ذریعے ہو یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے ۔ پھر اس کیلئے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے کیونکہ اموال ، جانوں سے کمتر نہیں ۔ ‘‘ ( تفسیر قرطبی : جلد ۵؍ صفحہ ۲۶۸)

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں :

’’ ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کروانا واجب ہے ، اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ بچے ۔ علامہ ابن خویز مندادرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو چھڑوانا واجب ہے ۔ اس سلسلے میں کئی آثار منقول ہیں کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قیدی چھڑوائے اور مسلمانوں کو قیدی چھڑوانے کا حکم دیا ۔ مسلمان ہمیشہ اسی پر عمل کرتے رہے ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے ۔ بیت المال سے قیدیوں کا فدیہ دے کر ان کو رہا کروانا واجب ہے ۔ اگر بیت المال نہ ہو تو یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ البتہ اگر کچھ لوگ اس فرض کو پورا کر لیں گے تو باقی لوگ گناہ سے بچ جائیں گے ۔ ‘‘ ( تفسیر قرطبی : جلد ۲؍ صفحہ ۲۶)

اس تحریر میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے ، وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے :

’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بھوکے کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کروائو‘‘ ۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۴۳۷۳)

امام ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ یہ حکم کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑوایا جائے ، ہمارے لئے بھی ثابت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین و انصار کے درمیان یہ دستاویز لکھی تھی کہ وہ ایک دوسرے کی دیت ادا کریں گے اور قیدی کا فدیہ ادا کریں گے ، معروف طریقے کے مطابق ‘‘ ( احکام القرآن ۔ ۱؍۸۵)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’قیدیوں کو چھڑوانا بڑے واجبات میں سے ہے اور اس سلسلے میں وقف شدہ اور دیگر مال کو خرچ کرنا بہترین نیکیوں میں سے ہے ‘‘ ( فتاویٰ ابن تیمیہ ؒ ۔ ۲۸؍ ۶۳۵)

امام نووی شافعی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

’’ اگر کافر ایک یا کئی مسلمانوں کو گرفتار کر لیں تو کیا ( جہاد فرض ہو جانے میں ) اس کا حکم بھی وہی ہے جو کفار کا دارالاسلام میں داخل ہونے کا ہے ؟ اس بارے میں دورائے ہیں … ان دونوں میں سے صحیح بات یہ ہے کہ جی ہاں! اس کا حکم بھی یہی ہے ، کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت جگہ کی حرمت سے کہیں زیادہ ہے ۔ (روضۃ الطالبین‘ ۱۰؍۲۱۶)

علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں:

’’مسلمانوں کے قیدیوں کا فدیہ دینا واجب ہے … فقہاء کرام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیدی چھڑوانے کیلئے لڑائی کرنا واجب ہے ، اگر ہم اس کے ذریعے قیدی چھڑوا سکتے ہوں ۔ ‘‘ ( المغنی ۔ ۹؍ ۲۲۸)

علامہ ابن العربی رحمہ اللہ شرعی حکم اور مسلمانوں کی حالت ِ زار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ اگر ہم اپنی تعداد کے ذریعے قیدیوں کو چھڑوا سکتے ہیں تو ہم میں سے کسی آنکھ جھپکنے والے کو باقی نہیں رہنا چاہیے ، یا ہمیں اپنا تمام مال ان کیلئے خرچ کر دینا چاہیے ، یہاں تک کہ کسی کے پاس ایک درہم بھی نہ رہے ۔ پس انا للہ و انا الیہ راجعون ! اس بات پر کہ لوگوں کے بھائی دشمن کی قید میں ہیں اور انہوں نے اپنے پاس بے شمار فالتو اموال اور طاقت جمع کر رکھی ہے ۔ ‘‘ ( احکام القرآن ۔ ۲؍ ۴۴۰)

یہ ہیں قرآن و سنت کی نصوص اور فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی آراء گرامی ، جو ہمیں غفلت اور بے حسی سے جھنجوڑ رہی ہیں ۔ یہ ہمیں وہ فرض یاد دلا رہی ہیں جو بحیثیت مجموعی ہم چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ کفار کے قید خانوں میں لٹتی عزتیں ، بہتے آنسو ، گرم لہو کے قطرے اور درد ناک چیخیں ، ہمیں اس بڑھیا کی طرح راستہ روک کر پوچھ رہی ہیں ، جس بڑھیا نے سلطان محمد تغلق کو ایک پل پر روکتے ہوئے کہا تھا :

’’ سلطان ! میرا فیصلہ اس پُل پر کرو گے یا قیامت کے دن پلِ صراط پر ؟‘‘

مسلمان قیدیوں کے حالات کو پریشان خیالی سمجھ کر جھٹک دینے والوں کو اس پر ابھی غور کر لینا چاہیے ۔

مسلمانوں کا ایک دور وہ تھا جب کفار کی قید میں ایک عورت پکارتی وامعتصماہ !… تو دارالحکومت سمیت پوری مملکت میں زلزلہ برپا ہو جاتا ، اپنے قیدیوں کی خاطر لشکر روانہ کئے جاتے ، ان کی آزادی اور رہائی کی تدبیریں کی جاتیں ، جیل خانے کی سلاخوں کے پیچھے ان تک ضروریات زندگی پہنچانے کی کوششیں ہوتیں۔ اس سلسلے کے واقعات اتنے ہیں کہ ان کیلئے مستقل کتاب درکار ہے ۔

ایک دور یہ ہے کہ مشرق و مغرب ہر سمت میں مسلمان قید خانوں میں سسک رہے ہیں ، جوانیاں دم توڑ رہی ہیں ، وحشیانہ ظلم و ستم آئے روز بڑھ رہا ہے ، انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپیئن خود حیوانیت کو بھی شرما رہے ہیں ، مگر پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں بسنے والے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے پاس ان قیدیوں کیلئے کچھ نہیں ہے ، اور اگر کچھ ہے تو چند طنزیہ فقرے اور کچھ بے سروپاباتیں …!

مسلمان قیدی ‘ وہ خواہ مرد ہوں یا خواتین‘ وہ بچے ہوں یا بوڑھے ‘ اُن کی رہائی کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا ہمارا شرعی فرض بھی ہے اور ہم پر اُن کا اخلاقی قرض بھی ۔ اللہ کرے کہ ہمیں اس کا احساس بھی ہو جائے ۔

٭…٭…٭