loader image

Days Passed

6816

AAFIA MOVEMENT

Dr.Aafia ke Liye Ahle Qalam ki Aawaz by Hafeez Khatak

امریکہ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے۔جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال بھی امریکہ میں ہی کیا جاتا ہے۔اسی مریکہ میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اعلی تعلیم حاصل کی ۔دوران تعلیم عافیہ نے خود پر امریکی معاشرے کا ذرا بھی خول چڑھنے نہیں دیا۔ ہر مقام اور جگہ نمایاں ہی نہیںنہایت واضح برتری کے ساتھ وہ تعلیم کے تمام میدانوںکامیابی کے ساتھ وہ اپنا اور اپنے ملک کا نا م روشن کرتی رہیںانہوں نے ۹۱ برس کی عمر میں امریکہ کی اک معروف یونیور سٹی میں اسلام میں عورت کے مقام پر وہ تقریر کی کہ جس سے اسلام پر تنقید کرنے والوں بہت سے نقادوں کو چپ لگ گئی۔۔عافیہ نے تعلیم مکمل کی وہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپاکرنا چاہتی تھیں ۔یہ ہی ان کا جرم تھا ۔لہذا انہیں اس جرم کی سزا دینے کیلئے اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے تین معصوم بچوں کے ہمراہ اسلام آباد جانے کیلئے اپنے گھر سے روانہ ہوئیں۔تاہم کچھ ہی دیر کے بعد امریکی ایف بی آئی کے اہلکاروں سیمت ہماری پولیس نے انہیں اغوا کرکیا ۔اس اقدام کی آشیر باد اس وقت کے آمر حکمران جنرل پرویز مشرف کی جانب سے حاصل تھی ۔اس واقعے پر آج بھی مہذب دینا میں ہر رنگ و نسل ، اور ہر مذہب کے لوگ صدمہ سے دوچار ہیں۔

اغوا کرنے والے انہیں پہلے اسلام آباد اور وہاں سے کابل لے گئے۔وہ چھ ماہ کا سلیمان ، جو نہ معلوم آج زندہ بھی ہے کہ نہیں، اس سمیت تین سالہ مریم اور احمد کو بھی اغوا کیا گیا اور انہیں نہ معلوم مقام پر رکھا گیا ۔انکی بوڑھی ماں کو ڈرایا دھمکایا گیا ،انکی زبان بندی کر دی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ بوڑھی ماں ایک جواں بیٹی اور تین نواسوں کی جدائی کا درد سہتے سہتے اک زندہ لاش کی مانند ہوگئیں۔عافیہ کے دوبارہ منظر عام پر آنے تک کا وقت انہوں نے کیسے گذارا یہ دکھ بھری داستان سننے کیلئے دل بھی چاہئیے اور کلیجہ بھی،بہرکیف عافیہ صدیقی جب تین سال بعد منظر عام پر آئی تو اس کی حالت دیدنی تھی۔اس پر ڈھائے جانے والے مظالم اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔انہیں افغانستان سے امریکہ پہنچا دیا گیا جہاں ایک نہایت ہی بھونڈہ مقدمہ ان پر درج کر کے کاروائی کی گئی۔اس مقدمے میں امریکی جج نے نہایت تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ۶۸ برسوں کی سزا سنائی۔وہ عافیہ صدیقی جو کہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا چاہتی تھیں امریکی شہریت کو ٹھکرا کر اسی امریکہ میں ناکردہ گناہوں کی سزا گذشتہ ۰۱ برسوں سے بھگت رہی ہیں۔ عافیہ جو پاکستان میں ایک تعلیمی نظام لا نا چاہتی تھیں جس کے تحت دیگر ممالک کے طلبہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے آتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اس وقت جو ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے انکی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے تنہا جدوجہد شروع کی ۔وہ نہتی عورت جو اپنی بہن کو رہائی دلانے کیلئے تنہا نکلی تھی آج دنیا بھر میں ان کی آواز پر لبیک کہنے والے لاکھوں افراد ہیں۔سب سے بڑھ کر انکا ساتھی عافیہ کا جواں سال بیٹا احمد ہی ہے جس نے نہ صرف اس سال خفظ مکمل کیا بلکہ اے لیول کے امتحان بھی دے دیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی مریم جو بالکل اپنی ماں کی کاپی لگتی ہیں وہ بھی اپنی خالہ کے ہمراہ اپنی ماں کی رہائی کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ وطن عزیز سمیت ، یورپ، خلیجی ممالک ، اور خود امریکہ میں عافیہ کی رہائی کیلئے بلا رنگ و نسل کاوشیں جاری ہیںاور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کاوشوں میں شدت آتی جارہی ہے۔دنیا بھر میں عافیہ کی رہائی کے حوالے سے مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔خود امریکہ میں عافیہ کی رہائی کے حوالے سے آئے روز مظاہرے ، ریلیاں اور سیمینار معمول بنتے جارہے ہیں۔حال ہی میں نامور امریکی اسلامک اسلکالرموری سالا خان نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے اعلی حکام سمیت سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کر کے عافیہ کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔عافیہ کی رہائی کیلئے بننے والی عافیہ موومنٹ پاکستان کی تحریک اب ایک عالمگیر تحریک بن چکی ہے۔اس کی جاری سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد پاکستان اور امریکہ میں بین القوامی سطح پر ایسا دباﺅ آنے والا ہے جس کے باعث امریکہ خود عافیہ کو باعزت رہا کردیگا۔ان شاءاللہ
عافیہ رہائی کی جدوجہد میں مختلف شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں۔اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سیمت دینی مدارس کے طلبہ کی بہت بڑی تعداد بھی شریک ہے۔

گزشتہ دنوں عافیہ موومنٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر عافیہ پر مقابلہ مضمون و نظم نویسی کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے ہزاروں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ہزاروں تحریروں اور نظموں میں بہترین کا انتحاب یقیقنا ایک مشکل مرحلہ تھا جس کو طے کرتے ہوئے خاصا وقت گذر گیا۔تاہم ۶۱ مئی کی شام وہ وقت بھی آگیا جب فاران کلب میں اس مقابلے کے نتائج کا اعلان کرنے کیلئے کا ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔تقریب میں شرکت کیلئے ملک بھر سے طلبہ فاران کلب آٓئے۔مذکورہ تقریب کے مہمان خصوصی (ر) جسٹس وجیہ الدین تھے جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن بھی مدعو تھے جو کہ ناگزیر وجوہات کے سبب شریک نہ ہوسکے۔تقریب میں میزبانی کے فرائض سینئر صحافی مظفر اعجاز نے سرانجام دیئے ۔عافیہ پر سینکڑوں نظمیں لکھنے والے ممتاز شاعر محمد نعیم نے بھی عافیہ پر اپنی نئی نظم سنائی جسے بے حد سراہا گیا۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے شرکاءکو مقابلے کی تمام اعراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے عافیہ کے متعلق تازہ ترین صوتحال بتائیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی جسٹس وجیہہ الدین نے تما م شرکاءکو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عافیہ کے کیس میں امریکی عدالت کا فیصلہ تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یہ عافیہ کا بنیادی حق ہے کہ حکومت اسے ہر ممکن آئینی اور قانونی مدد فراہم کرئے۔ان کے ساتھ دیگر مقررین نے بھی عافیہ کی باعزت رہائی کیلئے حکومت سے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔مقابلہ مضمون نویسی میں پہلا انعام بہاولپور کے عبدالحیفظ امیر پوری جبکہ بہترین نظم کا انعام دارلعلوم کورنگی کے محمد یاسر سلطان نے حاصل کیا ۔پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو شیلڈ کے ہمراہ پچیس ،پچیس ہزار روپے نقد دیئے گئے۔جبکہ دوسری اور تیسری پوزیشن سیمت دیگر شرکا ءکو بھی نقد انعام دئیے گئے۔

تقریب میں ان صحافی اور فوٹوگرافر ز کو بھی شیلڈ دی گئیں جنہوں نے عافیہ کی رہائی کے حوالے سے بہترین کوریج کی۔مغرب کی اذان پر تقریب کا اختتام ہوا۔سبھی شرکاءاپنے شہروں اور گھروں کو روانہ ہوگئے۔ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی بہن کی رہائی کیلئے ایک کامیاب تقریب کا انعقاد کر کے سنگ میل عبو ر کیا ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی تقریبات ،مقابلوں ، ریلیوں، سیمیناروں و دیگرپروگرامات سے کیا عافیہ کورہائی مل جائیگی؟