Salam Aafia !..
سلام اے عافیہ!…
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 440)
کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی امانت ایک بھاری بوجھ ہے…
بھاری نہ ہوتا تو پہاڑ اٹھا لیتے…
یا سمندر سنبھال لیتے…
مگر…
انہوں نے انکار کیا اور …
وہ ڈر بھی گئے…
’’نا سمجھ‘‘ اور ’’ بے خبر‘‘ انسان نے اپنا سینہ کھولا اور…
اپنے کندھے پیش کر دئیے…
کیا وہ بھی نہ اٹھا پایا؟؟…
جی نہیں …اس نے اٹھا لیا…سنبھال لیا اور پورا کر کے دکھایا…
ہاں!
یہ بات ضرور ہے کہ سارے مگر نہ اٹھا پائے…
’’پس ان میں سے بد بخت بھی ہیں اور خوش بخت بھی‘‘…
مسلمان ہونا کیا آسان کام ہے؟…
موروثی مسلمانوں کو کیا پتا؟…
لیکن اتنا تو علم ہے کہ آسان ہوتا تو پہاڑ کیوں انکار کرتے؟…
جی ہاں! آسان نہیں…
اس راہ میں وہ مشکلات ہیں کہ ان کے سامنے جگر خون ہونا یا پتہ پانی ہونا جیسے محاورے کھیل لگتے ہیں…
جو سب سے پہلے اس امانت کو اٹھانے والے بنے ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟…
جلتے کوئلے اور ننگی پشت…
گرم سنگریزے اور ان میں جذب ہوتے گھستے جسموں کے لوتھڑے اور خون…
خاندانی مقاطعے اور بائیکاٹ…
ماریں،اذیتیں اور گالیاں…
لیکن کیا یہ نشہ اتر گیا؟…
نہیں…ہرگز نہیں…ہاں البتہ یہ امانت اٹھانے والوں کو یہ ضرور کہنا پڑا…
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اور
اگر گویم مسلمانم بترسم
کہ دانم مشکلات لا الہ
مگر جب یہ طے تھا کہ یہ کلمہ بھاری ہے اور اسے پڑھنے والے کو یہ بار اٹھانا پڑے گا
تو…
سب سے پہلے اٹھایا کس نے؟
اولیت کا شرف کس کو ملا؟…
ایک عورت کو…سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا…
جب یہ طے تھا کہ یہ کلمہ’’ نصرت‘‘ مانگے گا…
تو نصرت کا عہد سب سے پہلے کس نے کیا؟…
ایک عورت نے…سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا…
جب یہ حتمی بات تھی کہ اس امانت کی خاطر جان بھی جا سکتی ہے تو …
سب سے پہلے جان کس نے دے دی؟…
ایک عورت نے…سیدہ زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا…
دین اسلام کو سب سے پہلے پناہ عورت کی آغوش میں ملی…
اس کی نصرت کا عہد سب سے پہلے ایک عورت نے کیا…
اس کی خاطر سب سے پہلے قربانی عورت نے دی،آنکھوں کی بھی اور پوری جان کی بھی…
عورتیں تو ہمیشہ سے ’’اولیت‘‘لیتی آئی ہیں…
اس لئے ’’عافیہ‘‘ اگر آج ہم سب سے اولیت لے گئی تو اچھنبے کی کونسی بات ہے؟
کیا انہونی ہو گئی؟…
آخر وہ سب پر ’’اولیت‘‘ لے جانے والی سیدہ خدیجہؓ کی روحانی اور مردوں میں سب پر اولیت رکھنے والے ’’صدیقؓ‘‘ کی نسبی بیٹی جو ہوئی…
سلام اے عافیہ سلام!…
٭…٭…٭
اسلام کی خاطرمردوں نے بہت قربانیاں دیں…بجا!…
بدر سے قندھار تک، احد سے برما تک…احزاب سے فلوجہ تک…طائف و حنین سے سرینگر تک اور خیبر سے غزہ تک…مقتل انہی کے خون سے معطر ہیں…بجا…بالکل بجا…
رزم گاہیں انہی کی سرفروشیوں سے زندہ اور انہی کے جذبوں سے زندہ ہیں…
وہ گھوڑے دوڑاتے ہیں،تلواریں اور توپیں چلاتے ہیں، سروںکی کھیتیاں کاٹتے ہین اور خون کی ندیاں،بہاتے ہیں…حق بالکل حق…
وہ شجاع ہیں،بہادر ہیں،جنگ آزما ہیں، مضبوط ہیں اور شہادت کے متلاشی…
بالکل درست…
لیلائے شہادت کی مانگ میں انہی کا خون سجتا ہے اور انہی کا لہو حوران بہشت کے ہاتھوں کی حناکاری کا فریضہ سر انجام دیتا ہے…کوئی شک نہیں…
عورتیں کمزور ہیں،ناتواں ہیں…یہ بھی بجا…
جنگ آزما نہیں… یہ بھی درست…
اور سب سے بڑھ کر کہ یہ ’’جہاد‘‘ ان پر فرض ہی نہیں کہ نبھانے کے لئے میدان میں آنا ان کی ذمہ داری ہو…یہ بھی بالکل سچ اور حق…
مگر اس جہاد میں مشکل کام…سب سے مشکل کام پھر بھی ان کے ذمہ ہے…
مرد تو موج میں ہیں…
لڑائی بھی اول اول مشکل، آگے چل کر مزا دیتی ہے…
فتح کا احساس لذت والی چیز ہے اور غنیمت کا مال لذیذ ترین…
اور اگر یہ نہ بھی ملے تو ’’شہادت‘‘ سے بڑھ کر لذت تو جنت کی نعمتوں میں بھی نہیں…
اور اس کے بعد حوریں،غلمان، سبز پرندے اور جنت کی سیر…
مشکل تو یہاں بھی ان بے چاریوں کے ہی حصے میں آئی…
بلبل کو دیا رونا تو پروانے کو جلنا
اور ہم کو دیا غم جو مشکل نظر آیا
یہ ماں ہے تو اس کے جوان بیٹوں کا غم…بیوی ہے تو حسین رشتے سہاگ کا غم…بہن ہے تو سر پر ہاتھ رکھنے والے بھائی کا غم…انہیں خوشی سے یہ سب کچھ قربان کرنا بھی ہے…اس غم کو سینے سے لگانا بھی ہے اور پھر گھٹ گھٹ کر اسی غم میں جینا بھی ہے اور یہی جینا جاں سے گذر جانے سے بڑا کمال ہے…
جب قربانی کے کمالات کے میدان میں سبقت ہے ہی ان کے لئے تو ’’عافیہ‘‘ بہن کا قربانی میں مردوں سے سبقت لے جانا بھی ایک منطقی بات ہے…انہونی نہیں…
اس نے قربانی دے دی اور وہ جیت گئی…
سلام اے عافیہ! سلام…
٭…٭…٭
عافیہ بہن نے بھی خوشی سے قربانی دی ہے…
’’جہاد‘‘ کا جھنڈا کوئی کسی کے ہاتھ میں زبردستی نہیں دے سکتا…یہ پہاڑ اپنی خوشی سے ہی اٹھایا جاتا ہے…
امت کو بیدار کرنے کے لئے اس کی قربانی لی گئی…
تحریض علی الجہاد کے لئے بہت سے عوامل کی ضرورت ہوتی ہے…
اور ان میں ایک’’مظلومیت کی داستان‘‘ کا ہونا بھی ہے…
ایک ایسا مظلومانہ استعارہ،جس کی طرف ’’ومالکم‘‘ کہہ کر متوجہ کیا جا سکے…
’’مدینہ‘‘ والوں کو جہاد پر اٹھانا تھا انہیں ’’مکہ‘‘ کی طرف توجہ دلا کر ’’ومالکم‘‘ کہا گیا…
ایسی ایک داستان ہر زمانے میں درکار ہوتی ہے…دلوں میں آگ لگانے کے لئے…
لیکن شجاعت و بہادری،ہمت و غیرت کی داستان بن جانا نسبتاً آسان ہے،اس لئے یہ کام مرد کر لیتے ہیں…
مظلومیت کا استعارہ بننا مشکل اور جان لیوا…اور یہ مشکل بھی ’’بہنیں‘‘ ہی اٹھاتی آ رہی ہیں…
کبھی ’’مکہ‘‘ میں…کبھی اندلس میں اور کبھی’’ دیبل‘‘ میں…
جی ہاں!عورتوں کی مظلومیت،بہنوں کی آہ و بکاء مردوں کو بیدار کرتی ہے…بھائیوں کو محمد بن قاسم بناتی ہے…
شرم کی بات تو یہ ہے ہم ابھی تک اسے آزاد نہ کرا سکے…اس جیل کی دیواروں سے سر نہ ٹکرا سکے جو ۱۱ سال سے ہماری آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتی ہے…
لیکن ایک بات کا یقینی علم ہے…جی ہاں بہت یقینی…
صدیقؓ کی بیٹی کی قربانی ضائع نہیں جا رہی… رنگ دکھا رہی ہے… اور اس کا حوالہ بھائیوں کے دلوں میں آگ بھڑکاتا ہے…
میں نے محض سترہ سال کے ایک انتہائی خوبصورت اور کڑیل بچے کو اس کا نام لے کر یوں تڑپتے دیکھا ہے جس طرح مچھلی پانی سے باہر آ کر تڑپتی ہے…
جس عمر میں نوجوانوں کو گیند،بلے اور موبائل سے آگے کی دنیا کا کچھ علم نہیں ہوتا اس عمر میں اس نے اس عظیم درد اور مبارک فکر اپنے دل میں جگائی…
اور پھر میں نے دیکھا کہ ’’ عافیہ‘‘ کو قید بنائے رکھنے والوں کے سب سے بڑے کیمپ کے اندر اس نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش اپنی بہن کو سلامی پیش کر رہی تھی اور عافیہ کے دشمن جائے عافیت ڈھونڈتے پھر رہے تھے…
سلام اے عافیہ سلام…
٭…٭…٭