Labaik ya Banti – Qari Naveed Masood Hashmi
’’لبیک یا بنتی‘‘
قلم تلوار…قاری نوید مسعود ہاشمی (شمارہ 440)
جب قوم کا اجتماعی شعور مر چکا ہو…جس قوم کے دانشوروں،تجزیہ نگاروں،کالم نگاروں،سیاست دانوں،شاعروں اور حکمرانوں کو ’’ڈالروں‘‘ کا چسکا پڑ چکا ہو…جس ملک کے میڈیا میں’’بے غیرت برگیڈ‘‘ کی واہیات اصطلاح بھی اعزاز و اکرام کا سبب سمجھی جائے…اس ملک کے حکمرانوں اور میڈیا کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی پاکدامن بیٹی کیسے یاد رہ سکتی ہے؟ گیارہ سال بیت گئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کو…ان گیارہ سالوں میں پاکستان کی اس عظیم بیٹی کے ساتھ وہ کونسا ظلم ہو گا کہ روا نہ رکھا گیا ہو؟
پاکستان کے ٹارچر سیلوں سے لے کر افغانستان کے قید خانوں تک…اور پھر امریکی عدالتوں سے لے کر امریکی جیلوں تک…ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے عزیمت کی جو تاریخ مرتب کی ہے وہ امت مسلمہ کے لئے سرمایہ افتخار رہے گی۔
دشمن نے کمینگی کی انتہا کر دی…مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے برداشت کی حد کر دی۔’’دشمن‘‘ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گیا…مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ہمت و صبر کا مظاہرہ کر کے عروج و کمال کی بلندیوں کو چھو لیا…دشمن نے نیچ پن کی بد ترین مثالیں قائم کیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی اسلام سے وفاداری کا حق ادا کر دیا…ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی محترمہ بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جب بھی اپنی گرفتار بہن کا دکھڑا لے اسلام آباد تشریف لاتیں ہیں تو میں ان کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہوں۔لیکن مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جس جانفشانی کے ساتھ اپنی مظلومہ بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی مہم کو پاکستان کے چاروں کونوں تک پھیلایا یہ یقیناً ان پر اللہ کا خاص انعام تھا۔
امریکہ کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86سال سزا سنا کر جس طرح سے صلیبی ذہنیت کا ثبوت دیا وہ کسی بھی باشعور سے مخفی نہیں ہے…امریکہ کہ جو پاکستانی سیکولر فاشسٹوں کے لئے سپرپاور ہے…لیکن یہ سپر پاور امریکہ،اک دھان پان سی لڑکی سے اتنا ڈرتا ہے کہ اس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86سال تک مستقل باندھنے کا انتظام کر لیا…رسوائے زمانہ پرویز مشرف کے وکلاء اور حواری شور مچاتے ہیں کہ پرویز مشرف کی ماں بیمار ہے لہذا اسے’’اماں‘‘ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے…یہ کیسا بزدل ’’کمانڈو‘‘ ہے کہ جو ماں کی عیادت کی آڑ میں ملک چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتا ہے…ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی ڈکٹیٹر کے سیاہ دور میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا…اس ظالم ڈکٹیٹر سے کوئی پوچھے کہ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اس کے معصوم بچوں کو چھین کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا…تب تمہیں اس پر رحم کیوں نہیں آیا؟جب تم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فروخت کر کے ڈالر وصول کئے تھے…تب تمہیں اس پر ترس کیوں نہ آیا؟چشم فلک نے ان سے بڑے اور بدمعاش بھی کبھی دیکھے ہوں گے…کہ جنہوں نے اپنے ہی ملک ،مذہب اور وطن کی ایک بیٹی سے اس کے معصوم بچے چھین کر اسے امریکیوں کے حوالے کر دیا ہو؟ ایک مسلمان بیٹی کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنانے والے …پھر وہ بیٹی جو معصوم بچوں کی ماں بھی ہے…اس ماں سے اس کے معصوم بچے جدا کر کے…اسے امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے والے…ربا! یہ زمین پھٹی کیوں نہیں؟ آسمان ہلا کیوں نہیں؟ہزار بار لعنت ہو ایسی روشن خیالی اور سیکولر لا دینیت پر…بیٹیوں کی عزت،رفعت اور عظمت کے دفاع کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے…اس لئے کہ ریاست ماں کی طرح ہوا کرتی ہے…جب ریاست کے نگہبان ہی ماؤں سے بچے چھین کر انہیں امریکہ کے ہاتھوں ڈالروں کے بدلے فروخت کرنا شروع کر دیں گے…تو پھر وہ ریاست ماؤں کی آہوں،بہنوں کی سسکیوں اور بیٹیوں کی چیخ و پکار کے بوجھ تلے دب جایا کرتی ہے۔
کوئی ہے جو مجھے بتائے کہ حجاز مقدس سے لشکر لے کر سندھ دھرتی کو فتح کرتے ہوئے ملتان تک اسلام کا پرچم سر بلند کرنے والا محمد بن قاسمؒ کون تھا؟اور وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر بیٹھ کر…ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دیبل کے ساحل تک کیوں پہنچا؟کیا محمد بن قاسم ؒ نے سندھ پر حملے زن،زر اور زمین کے حصول کے لئے کئے تھے؟ کیا محمد بن قاسمؒ کو تھر کے صحراؤں سے پیار تھا؟ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم جرنیل محمد بن قاسمؒ کہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جسے قیامت کی صبح تک جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتی رہیں گی…سری لنکا سے 712 ء کو ایک جہاز خلیج کی طرف چلا…جس میں عرب تاجروں کے بچے بھی تھے اور کچھ حاجی بھی سوار تھے…یہ جہاز جب سندھ کے علاقے دیبل پہنچا تو یہاں ڈاکوؤں کے ایک منظم گروپ نے اس پر حملہ کر کے مال و اسباب کو لوٹ کر عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا تھا…ان قیدیوں میں شامل ایک مسلمان خاتون نے غائبانہ فریاد کر کے کہا’’ اے حجاج! تم کہاں ہو ہماری مدد کرو‘‘ جب یہ فریاد رات کے وقت حجاج تک پہنچی تو اس نے فوراً کہا ’’ لبیک یا بنتی‘‘ میری بیٹی میں مدد کے لئے حاضر ہوں… یہ کہہ کر حجاج بن یوسف ساری رات غم و غصے کی وجہ سے سو نہ سکا…اور دنیا کے نقشے پر سندھ کو تلاش کرتا رہا،جب انہیں سندھ کا علم ہوا تو انہوں نے اس جگہ بطور نشان ایک تیر پیوست کر دیا۔
حجاج بن یوسف اس وقت عراق کا گورنر تھا…اس نے راجہ داہر کو ایک خط لکھا کہ لٹیروں کو گرفتار کر کے سزا دو اور مظلوم بچوں اور عورتوں کو ڈاکوؤں کے چنگل سے فورا رہا کرواؤ،راجہ داہر نے جواب میں کہا کہ میں بحری قزاقوں کا ذمہ دار نہیں ہوں… اور نہ میرے پاس اس کا کوئی علاج ہے…راجہ داہر تو جواب دے کر مطمئن ہو گیا…مگر حجاج بن یوسف اس مظلوم فریادی خاتون کی پکار کو نہ بھلا سکا…اس نے دو جرنیلوں کو سندھ کی مہم پر بھیجا مگر جب خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو اپنے 17سالہ بھتیجے محمد بن قاسمؒ کی زیر قیادت بارہ ہزار کا لشکر جرار دے کر اسے مسلمان بچیوں اور بچوں کو رہا کروانے کے مشن پر روانہ کر دیا۔
سب سے پہلے حضرت محمد بن قاسمؒ نے سندھ کے علاقے ’’قترپور‘‘ اور ’’ارمابیل‘‘ کو فتح کیا…اور پھر دیبل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی…راجہ داہر کی فوج نے دیبل کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں…مگر محمد بن قاسمؒ نے خندقوں میں منجنیقیں نصب کر دیں، ایک منجنیق اتنی بڑی تھی کہ پانچ سو آدمی اس کے وزنی پتھر کو چلاتے تھے…اور پھر کئی ماہ کی شدید جنگ کے بعد محمد بن قاسمؒ کے مجاہدین نے دیبل کو فتح کر کے وہاں اسلامی پرچم لہرا دیا…اور پھر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمد بن قسمؒ ’’بہڑوچ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے سیستان تک جا پہنچنے…اور پھر ایک ہفتے کی لڑائی کے بعد’’سیستان‘‘ کو فتح کرنے کے بعد ’’سیم‘‘ کو بھی فتح کر لیا۔حضرت محمد بن قاسمؒ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے…سانگھڑ، روھڑی اور سندھڑی میں کئی معرکے لڑتے گئے…کینجر جھیل کے پاس شدید جنگ ہوئی…اور پھر مسلمانوں نے سکو اور روھڑی کے ناقابل تسخیر قلعوں کو بھی فتح کر لیا۔وادی مہران کے پاس شدید معرکے لڑے گئے…اور برہمن آباد میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم ؒ کی فوجوں میں دوبدو لڑائی ہوئی…کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں 26ہزار راجہ داہر کے فوجی مارے گئے…راجہ داہر کے پاس’’ بیٹ‘‘ کی مرکزی حکومت تھی اور وہ خود ’’ جی کاٹ‘‘ مقام پر قیام پذیر تھا۔سندھ کے مشرقی کنارے پر محمد بن قاسمؒ اور راجہ داہر کی فوجوں میں براہ راست ٹاکرہ ہوا۔تیروں،تلواروں،نیزوں اور بھالوں کی بارش میں مجاہدین نے دریا عبور کر کے راجہ داہر کی فوج کے قدم اکھاڑ ڈالے…اور بالاخر راجہ داہر بھی مارا گیا۔ایک قیدی مسلمان خاتون کی فریاد پر…محمد بن قاسمؒ نے راجہ داہر کی 33سالہ ظالمانہ حکومت کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے…اور پھر ’’راور‘‘ کے قلعے میں بند ان قیدی خواتین اور بچوں کو رہائی دلوا کر یہ ثابت کر دیا کہ ’’غیرت اور حمیت اسلامی‘‘ دراصل اس کا نام ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 11 سالوں سے کسی محمد بن قاسم ؒ کی منتظر ہے؟ لیکن سیکولر لادینیت کی چلتی آندھیوں اور امریکی روشن خیالی کے اندھیروں نے قلب و اذہان پر تالے لگا رکھے ہیں…وہ سمجھتے ہیں کہ شاید سیکولر لادینیت سے اندھیروں سے سب کی آنکھوںکو اندھا کر سکتے ہیں…لیکن ان بدبختوں کو کوئی بتائے کہ جب ’’اللہ کے نور‘‘ کا سورج روشن ہوتا ہے تو پھر ظلمات و تاریکیوں کے اندھیرے چھٹ جایا کرتے ہیں…جہاد و قتال ہی وہ عبادت ہے کہ جس عبادت کے ذریعے ’’فتنوں‘‘ کا سدباب کیا جا سکتا ہے…اور انشاء اللہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مشکلیں بھی آسان ہو کے رہیں گی۔
٭…٭…٭