Behan Aafia Siddiqui ki Istaqamat .. Aur Umat e Muslima ki Be hasi !!
بہن عافیہ صدیقی کی استقامت…اور امت مسلمہ کی بے حسی!!
اداریہ (شمارہ 440)
اس وقت بہن عافیہ صدیقی کو امریکی درندگی اورمظالم بھری اسارت میں گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں اور انصاف پسند دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی! امت مسلمہ پر ایسی عالمی بے حسی پہلے تو کبھی طاری نہیں ہوئی؟ نہ معلوم اب اس عظیم شان والی امت کو اپنی روشن تاریخ کیسی بھول گئی؟
بہن عافیہ صدیقی اس وقت ایک عورت کا قصہ نہیں، یہ ایک ملک کا غم بھی نہیں، بلکہ یہ تو پوری امت کی غیرت اور زندگی وموت کا مسئلہ ہے، عافیہ صدیقی اگرچہ ایک فردواحد کا نام ہے مگر اب وہ ہر مظلوم اور حق پر ڈٹ جانے والی باغیرت مسلم خاتون کا استعارہ ہے، عافیہ کی عزت کے ساتھ مسلم قوم کی عزت وابستہ ہوچکی ہے، عافیہ کے دشمنوں کا ان کے انجام بد سے دوچار کرنا یہ اس امت کی زندگی کی علامت ہوگی ورنہ بصورت دیگر یہ قوم مردہ شمار ہوگی اوراب تک پوری قوم پر یہ مردہ پن چھایا ہوا ہے۔ مسلم قوم کی تاریخ تو ہمیں کچھ اور بتاتی ہے۔ تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے اوریہ اس زمانہ کی بات ہے جب اسپین میں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل اندلس میں یہ دستور تھا کہ امرائِ سلطنت اور گورنر اپنے بچوں کو شاہی آداب سیکھنے کے لئے شاہی محل بھیجا کرتے تھے۔ اندلس کا ایک اہم علاقہ سبتہ تھا جس کا گورنر کائونٹ جولین تھا۔ کائونٹ جولین نے اپنی بیٹی فلورنڈا کو طلیطلہ میں عیسائی بادشاہ راڈرک کے محل میں تعلیم و تربیت کے لئے بھیج دیا تھا۔ جب وہ جوان ہوئی تو راڈرک اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگیا اور بادشاہت کے غرور اور طاقت کے نشہ میں چور ہوکر لڑکی کے دامن عصمت کو تار تار کردیا۔فلورنڈا نے بڑی مشکل سے یہ اطلاع اپنے باپ کائونٹ جولین کو دی۔ جولین اس بے عزتی پر بادشاہ کا دشمن ہوگیا اور اس سے انتقام اور اپنی باعفت بیٹی فلورنڈا کے حق کے لئے عظیم مسلم سپہ سالار موسیٰ بن نصیر سے امداد کی درخواست کی ، اس وقت شمالی افریقہ پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوچکا تھا۔۹۱ھ میں موسیٰ بن نضیر اور طارق بن زیاد کی کوششوں سے اندلس پر حملہ ہوا جسے مسلمانوں نے فتح کرکے وہاں کی رعایا کو عیسائی مظالم سے نجات دلائی۔ مگر آج عافیہ بہن کے لیے کوئی بھی مسلم حکمران، گورنر یا فوجی سپہ سالار ایسا نہیں ہے!
افسوسناک پہلو تو یہ ہے یہاں معاملہ ہی الٹا ہوچکا ہے، وہی جو اس قوم مسلم کے رکھوالے بنتے ہیں وہی آج کے ظالم عیسائیوں اور یہودیوں کی گود میں جابیٹھتے ہیں، جو اس قوم مسلم کے سربراہ بن کر کھڑے ہوتے ہیں وہی ان کافروں کے سامنے جا کر گھٹنے ٹیکتے ہیں، وہی جو اس قوم مسلم کو ظالموں سے نجات دلانے کے لیے لشکرجرار تیار کیاکرتے تھے اب وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت اور اپنی پہچان مسلم عورت کو کافروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ کوئی اپنے جھوٹے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسی کمینی حرکت کرتا ہے تو کوئی حکومت حاصل کرنے کے لیے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔
پاکستان ایک آزاد ملک ہے کہنے والے یہاں آکر کیوں خاموش ہوجاتے ہیں، پاکستان کی فوج دنیا کی مایہ ناز فوج ہے کا نعرہ لگانے والوں کی قوت گویائی یہاں کیوں سلب ہوجاتی ہے؟ پورے عالم اسلام میں اتنی بھی سکت نہیں کہ اپنی ایک مسلمان بہن کو رہا کرواسکیں؟ پھر ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اگر بھرپور کوششیں کرتے تو انہیں معذور قراردیاجاسکتا تھا، مگر یہاں تو خاموشی کا سناٹا چھایا ہوا ہے، کوئی ایک بھی بلند آواز اس سلسلے میں کہیں نہیں سنائی دیتی، جو کمزور ہیں وہ آہیں بھرتے ہیں اوروہ صدائیں لگاتے ہیں مگر اس نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے؟ اور جو کچھ کر سکتے ہیں اور کرسکنے کے بڑے دعویدار ہیں ان کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے! اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ’’تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو دوسرا بھی اس تکلیف میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے‘‘۔مگر آج ملالہ کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے والے بہت ہیں مگر عافیہ جیسی حقیقی مظلوم بہن کا درد بانٹنے والے تھوڑے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ’’ مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر نہ ظلم کرتا ہے اورنہ ہی اسے مصیبت میں تنہا چھوڑتا ہے‘‘ مگر افسوس اب تو خود مسلمان کہلوانے والے مصیبت میں ساتھ دینے کے بجائے اپنے ہاتھوں مصیبت میں دھکے دیتے ہیں۔
آخر کوئی ہے ؟ جو اس وقت ہے ارباب اختیار سے یہ احتساب کرے کہ کس بنیاد پر عافیہ بہن کو امریکہ کے حوالے کیا گیا؟ ایک مجرم تو قدرت کے قانونی شکنجے میں جکڑا ہوا ذلت کا ایسا نشان بن چکا ہے کوئی اس کا نام بھی لینے کو تیار نہیں ، مگر اس کا بھی اس حوالے سے تو کوئی احتساب نہیں کیا گیا؟
یہ سیاہ رات زیادہ دیر تک باقی نہیں رہے گی، حکومتیں کفر کے ساتھ تو چل جاتی ہیں مگر ظلم کے ساتھ نہیں، اور آج پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے تو کیا اس کے پس پردہ یہ مظالم شامل نہیں ہیں؟ یقینا ہیں بلکہ یہ جرم ان جرائم میں سرفہرست ہے اور ابھی تک ارباب اقتدار نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے عافیہ صدیقی کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا مگر اب کہاں؟ اب تو ان کی زبانوں پر یہ لفظ آتا ہی نہیں اورشایداب تو وہ وعدہ بھی ان کے ذہن سے فراموش ہوچکا ہوگا؟ اس وقت ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کو بیدار کیا جائے، امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے، کیوں کہ بہنوں کے محافظ ان کے بھائی ہی ہوا کرتے ہیں، اور پاکستان کے حکمرانوں کو چاہئے کہ اس بارے میں ہوش کے ناخن لیں ، اپنی قومی اوراسلامی ذمہ داری کا احساس کریں، فی الوقت اس حوالے سے دو کام سرفہرست ہیں: ایک تو عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے والے مجرموں کی نشاندھی کی جائے اورانہیں قرارواقعی سزا دی جائے، اس حوالے سے آزاد عدلیہ کا کردار بھی اہم ہے ، وہ بھی خود ایکشن لے کر ان مجرموں کی گردنوں کو ناپے جنہوں نے پوری قومی وملکی سلامتی کے خلاف اور اسلامی اخوت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک اپنی ہی قوم کی بیٹی کو امریکی درندوں کے حوالے کیا، اوردوسرا کام یہ ہے کہ امریکہ سے دوٹوک انداز میں عافیہ کی رہائی کی بات کی جائے، اور جس طرح بھی ممکن ہواسے دشمن کی قید سے آزاد کرایا جائے، اور پوری قوم مسلم کو چاہئے کہ اسلام دشمن قوتوں کو پہچانیں اور قوم مسلم کو خون میں نہلانے والے اور ہماری عزتوں کو اپنی جیلوں میںبندکرنے والے بد کرداروں کے مقابلے کے لیے عزم جہاد اپنے اندر پیدا کریں، جہاد کا مضبوط اورپختہ عقیدہ اپنے دل میں اتاریں، جہاد کو قرآن کریم اورسنت رسولﷺ کی روشنی میں سمجھیں، مغرب کی عیاری اورمکاری کے فریب سے خود کو باہر نکالیں، اور اس حوالے سے جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے اور جو کردار وہ اداء کرسکتے ہیں اس کے لیے آگے بڑھیں۔زندہ قومیں اپنی عزتوں سے اس طرح غافل نہیں ہوتیں اورنہ ہی وہ مایوس ہوتی ہیں، بس ہمت کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ بقول شاعر:
اگر ہمت کرے انسان تو پھر کیا نہیں بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے