عافیہ صدیقی، شکیل آفریدی اوردودھ میں مینگنی:عارف بہار
وفاقی حکومت نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر امریکا اور پورپی ملکوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ حکومت کونسل آف یورپ کنونشن پر دستخط کرنے کی تیاری کررہی ہے جس کے بعد وہ بیرونی ملکوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدات کرتی جائے گی، اور یوں غیرملکی جیلوں میں مقید تمام پاکستانیوں کی وطن واپسی ممکن ہوسکے گی۔ حکومت کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق اِس وقت پندرہ سو پاکستانی دنیا بھر کی جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں، جبکہ ایک سو کے قریب غیر ملکی، پاکستانی جیلوں میں بند ہیں جن میں اکثریت منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں قید ہے۔ سب سے زیادہ پاکستانی ترکی کی جیلوں میں ہیں۔ یہ غالباً وہ بدقسمت پاکستانی ہیں جو آنکھوں میں خوش حال مستقبل کے سپنے سجائے یورپ کا رخ کرتے ہیں مگر اس کے لیے ویزے پاسپورٹ کے چکروں میں پڑنے کے بجائے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں غیر قانونی طور پر لانچوں میں بٹھاکر یونان کی سرحد تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ یونان کی سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی یا تو گرفتار ہوجاتے ہیں یا کسی حادثے کی زد میں آکر ایک دلخراش یاد اور بھیانک واقعہ بن جاتے ہیں۔ ترکی چونکہ اس راہ کا اہم پڑائو ہے اس لیے ان پاکستانیوں کا وہاں دھر لیا جانا معمول کی بات ہے۔
دوسرے ملکوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا حکومتی فیصلہ درحقیقت عافیہ صدیقی کی رہائی کی موہوم امید پیدا ہونے کے بعد ہی کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی ایک باصلاحیت بیٹی ہیں جو پاکستان میں بھڑکائی جانے والی پراسرار لڑائی کی آگ کا ایندھن بنیں۔ عافیہ صدیقی کو ان کے بچوں کے ساتھ اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔ ان پر بظاہر کوئی الزام بھی عائد نہیں کیا گیا۔ عافیہ کی گرفتاری ملکی اور غیر ملکی ایجنسیوں کا مشترکہ منصوبہ تھا؟ یا یہ محض سی آئی اے کا آپریشن تھا؟ ان سوالات کے جواب ملنا ابھی باقی ہیں۔ عافیہ کو افغانستان کے بگرام ایئربیس منتقل کیا گیا جہاں ان پر ایک امریکی فوجی سے بندوق چھیننے کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ عافیہ کے چند ماہ کے بیٹے کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اور خود عافیہ کو بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔ ان تعذیب کدوں میں بند قیدیوں نے ایک خاتون پر ظالمانہ تشدد کی خبریں آزاد دنیا تک پہنچائیں، جس کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ قیدی پاکستان کی پی ایچ ڈی خاتون ڈاکٹر عافیہ تھیں۔
افغانستان کے تعذیب کدوں میں جب عافیہ پر تشدد سے امریکیوں کا جی نہیں بھرا تو انہیں امریکا منتقل کردیا گیا اور ہڈیوں کا ڈھانچہ، خوف، دہشت، نسیان جیسے نفسیاتی عارضوں کا شکار یہ زندہ لاش اب برائے نام ہی عافیہ صدیقی تھیں۔ اپنی ذہانت، علم اور تجربہ وہ پاکستان میں ہی دفن چھوڑ آئی تھیں۔ افغانستان سے امریکا کے سفر میں وہ محض ایک زندہ لاش تھیں۔ اس دوران پاکستان کے حکام عافیہ کی گرفتاری کی تردید کرتے رہے، مگر یہ سچ ہے کہ عافیہ کے اغوا میں جنرل پرویزمشرف جیسے مطلق العنان حکمران کی منشا اور مرضی شامل تھی۔ امریکا میں ایک کینگرو کورٹ نے مقدمہ چلا کر عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنادی۔ اُس وقت پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور حسین حقانی کی صورت میں ایک امریکی لاڈلے امریکا میں پاکستانی سفیر تھے۔ یہ وہ ذاتِ شریف تھی جو امریکا میں پاکستان کی سفارت کاری اور وکالت کرنے کے بجائے پاکستانی اور امریکی میڈیا میں امریکیوں کی وکالت کرتی دکھائی دیتی تھی۔ جس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ حسین حقانی امریکا کی وکالت کرتے تھے اگر اس سے دس گنا کم مہارت کے ساتھ امریکا میں پاکستان کی وکالت کرتے تو شاید دونوں ملکوں کے تعلقات میں موجودہ پیچیدگی نہ ہوتی۔ یہ ذات ِشریف صدر زرداری سمیت کسی کی وفادار نہ تھی۔ یوں لگتا ہے کہ موصوف افغان صدر کرزئی کی طرح خود امریکی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان میں حکمران بننا چاہتے تھے۔ اس شخص نے عافیہ کے مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، اور یوں امریکا کی کینگرو کورٹ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگئی۔ اس کے بعد بھی حکومت نے عافیہ صدیقی کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی اور والدہ حکومت پر اس کیس میں عدم دلچسپی کے الزامات برسرعام عائد کرتی رہیں۔ ایک بار عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ نے یہ دکھ بھری کہانی مجھے بھی ٹیلی فون پر سنائی اور میں مبہوت ہوکر ایک ماں کی دکھ بھری کہانی کو سننے اور اپنے قومی کردار پر نادم ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ شاید قلم کی طاقت اندھی طاقت کی فصیل میں دراڑ ڈال سکتی ہے۔ مگر ایسا کب ممکن تھا؟ مفادات کے کھیل میں شاید مفاد پر ضرب ہی طاقت کی فصیل میں چھید کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکا کو اُس وقت تک عافیہ صدیقی کی رہائی کا خیال نہیں آیا جب تک اس کو پاکستان کی جیل میں قید اپنے ایک دوست ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی میں دلچسپی پیدا نہ ہوئی۔ جس طرح عافیہ کی قید پاکستان کی قومی غیرت اور خودمختاری پر تازیانہ ہے، امریکیوں کے خیال میں ان کے سب سے بڑے دشمن تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنے والے شکیل آفریدی کی اسیری بھی ان کی عالمی ناموس کے لیے تازیانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شکیل آفریدی کے لیے محفوظ راستے کی تلاش پر اتفاق ہوتا جارہا ہے۔ عدالت نے شکیل آفریدی کی سزا کو کالعدم قرار دے کر اس راستے کی تلاش آسان بنادی ہے اور وہ دن دور نہیں جب شکیل آفریدی امن کا عالمی انعام وصول کرنے کے لیے کسی جہاز میں بیٹھ کر اُڑن چھو ہوجائے گا۔
یہ بات خوش آئند تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عافیہ صدیقی کی رہائی میں ماضی کی حکومت کے برعکس کچھ دلچسپی دکھائی اور امریکا کے نئے وزیر خارجہ جان کیری کے سامنے عافیہ کی رہائی اور ڈرون حملوں کا معاملہ اُٹھایا۔ ڈرون پر ابھی کوئی حتمی سمجھوتا نہیں ہوا مگر عافیہ کی رہائی کے لیے شاید حکومت کو کچھ گرین سگنل ملنے لگے ہیں جس کے بعد ہی حکومت نے امریکا اور یورپ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدات کے لیے قانونی اور کاغذی کارروائی کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسے بلاشبہ نواز حکومت کی ایک اہم سفارتی کامیابی سمجھا جائے گا، مگر یوں لگتا ہے کہ امریکا اور نواز حکومت دونوں دودھ میں مینگنی ڈالنے پر تُل گئے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کی باتوں کے ساتھ شکیل آفریدی کی رہائی کے اشارے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ عافیہ صدیقی کی رہائی پاکستانی عوام کا ایک مقبول نعرہ رہا ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کی یہ باصلاحیت بیٹی وطن واپس آئے اور پاکستان کی عزت و ناموس اور خودمختاری کے آگے لگے موٹے موٹے سوالیہ نشانوں میں سے کم ازکم ایک نشان تو حذف ہوجائے۔