loader image

Days Passed

6816

AAFIA MOVEMENT

جان کیری کیوں آئے تھے… : مظفراعجاز

مظفراعجاز
انگریزی روزنامے میں ایک بڑی سی تصویر شائع ہوئی ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ شائع کرائی گئی ہے۔ تصویر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشیر خصوصی برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ سرتاج عزیز سے مصافحہ کررہے ہیں۔ اس تصویر سے دو معانی نکل رہے ہیں ایک یہ کہ جان کیری سے مصافحہ سر تاج عزیز کی زندگی کی بہت بڑی خواہش تھی اور پاکستان کی صدارت کی کرسی حاصل نہ کرنے کے غم کو جان کیری سے مصافحہ کے ذریعہ غلط کررہے ہیں خوشی ان کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ جان کیری سر تاج عزیز کا ہاتھ بہت زور سے دبا رہے ہیںاور دھمکی آمیز انداز میں کچھ کہہ رہے ہیں سرتاج عزیز کے چہرے سے تکلیف کے آثار نمایاں ہورہے ہیں شاید چیخے بھی تھے۔ ارے میرا ہاتھ تو چھوڑ… عموماً سفارتی ملاقاتوں اور ان کے بعد جاری ہونے والی خبروں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تصویر میں مسکرانے والے رہنما ملاقات کے دوران مذاکرات کو میز پر لڑرہے ہوتے ہیں ۔ لیکن زیر نظر تصویر کے دوسرے معنی اس مرتب خبر سے زیادہ قریب نظر آرہے ہیں۔ خبر میں پہلا جملہ یا ہم ہدایت ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرو… اس کے بعد یہ خبر ہے کہ امریکا پاکستان سے اسٹریٹجک تعلقات پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے لیکن ایک تنبیہہ کے ساتھ۔ جہاں تک دوسرے اخبارات کا تعلق ہے ان میں بھی یہی خبر لگی ہے کہ امریکا نے ڈرون حملے بند کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے منمناتے ہوئے کہا ہے کہ حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں اور ان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جان کیری پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کی پیشکش کررہے تھے اور افغان مصالحتی عمل میںپاکستان کی مدد مانگ رہے تھے۔ گویا تمام باتیں امریکا کے حق میں جارہی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کھل کر یہ بھی کہا ہے کہ پاک ایران گیس منصوبے کی مخالفت جاری رہے گی۔ پاکستان کی طرف سے منمناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حضور کوناگوار نہ گزرے تو دست بستہ عرض کرنی ہے کہ جناب منصوبے پر عمل نہ کیا تو 50 لاکھ ڈالر جرمانہ ہوگا۔ گویا ہمارے حکام نے رضا مندی ظاہر کردی ہے کہ آپ 50 لاکھ ڈالر جرمانے کا انتظام کردیں، ہم منصوبہ ترک کردیں گے۔
جان کیری صاحب سے ایک نجی ٹی وی نے انٹرویو کیا تو اسی دوران عافیہ صدیقی کے بارے میں غیر متوقع سوال آگیا جس پر ان کا جواب کسی طور پر بھی ایک وزیر خارجہ کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عافیہ کے معاملے کو میں خود نہیں جانتا مجھے بھی اس کو جاننا پڑے گا۔ گویا وہ اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی برابر ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی جب تک وزیر خارجہ رہے عافیہ صدیقی کو امریکی شہری سمجھتے رہے۔ ہمیں نہیں پتا… بلکہ اچھی طرح پتا ہے کہ انٹرویو لینے والی اینکر نے یہ سوال پروڈیوسر کی مرضی سے ہی کیا ہوگا ورنہ وہ بھی عافیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہوگی۔ جان کیری کے اس جواب کے بعد فوری طور پر سوال آنا چاہیے تھا کہ اگر آپ عافیہ کے معاملے کو نہیں جانتے اور ’’جاننا ہوگا‘‘فرمارہے ہیں تو گزشتہ دورے میں عافیہ کی والدہ کو فون کیوں کیا تھا۔ کیا آپ کی حکومت نے کچھ نمبرز پکڑا دیتے تھے کہ جائو اور پاکستان میں ان لوگوں سے احوال پوچھ لو… یاد رہے ریمنڈڈیوس کو لے جانے کے لیے بھی جان کیری آئے تھے اور خبر گرم ہے کہ شکیل آفریدی کو بھی وہی لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی پتا ہے کہ شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کے مطالبے یا حکم پر اب تک پاکستان نے کوئی جواب نہیں دیا ہے شاید اس کا جواب انہوں نے یہ دیا تھا کہ عافیہ کے معاملے پر پاکستانی حکام نے بات نہیں کی۔ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کیونکہ امریکی حکام نے ہمیشہ پاکستان آکر کہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے عافیہ کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں کی… عافیہ کا مسئلہ جنرل پرویز کے دور میں کھڑا ہوا۔ شوکت عزیز وزیراعظم رہے۔ پیپلز پارٹی کا دور گزرا آصف زرداری صدر رہے اور گیلانی وزیراعظم اور اب میاں نواز شریف وزیراعظم ہیں سب نے کہا کہ عافیہ قوم کی بیٹی ہے لیکن قومی وقار کی اس قدر پامال کہ جب امریکی حکام پاکستان آتے ہیں یا ہمارا وفد امریکا جاتا ہے تو عافیہ کے مسئلہ پر بات تک نہیں کرتا۔ ہمیں شکایت بھی امریکی حکومت سے نہیں ہے بلکہ اپنے حکمرانوں سے ہے انہیں کیا ہوجاتا ہے۔ ایک پاکستانی شہری عورت کو امریکی قید میں سڑنے دے رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ اپنے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ان پر حکم چلاتے ہیں اور امریکی آقا آجائیں تو دم ہلاتے ہیں۔ ہمارے حکمران خوش ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ آیا تھا لیکن قوم کو بتایا تو جائے کہ کیوں آیا تھا کیا بھاشن دے کر گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے امریکی جمہوریت کا بھی پول کھول دیا اور کھل کر بتا دیا کہ انتخابات عوام کی مرضی سے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مصری عوام کی مرضی سے مرسی کو ہٹایا گیا ہے۔ گویا ایک سال قبل ہونے والے انتخابات میں مرسی کو جو عوامی رائے ملی تھی جو کروڑوں ووٹ ملے تھے وہ عوامی رائے نہیں تھی بلکہ عوامی رائے وہ تھی جس میں اربوں ریال خرچ کر کے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو سڑک پر لایا گیا تھا۔ سچ ہے میاں نواز شریف صاحب بھی ہوشیار رہیں کل کوئی احتجاج ہوا تو یہی جان کیری کہیں گے کہ نواز شریف صاحب کو عوام کی مرضی سے ہٹایا گیا۔ خود امریکی عوام کی مرضی کے بارے میں جان کیری صاحب کا کیا خیال ہے۔ شاید ڈاکٹر یونس بٹ نے اسی لیے کیری کو حرام یعنی ہرا آم قرار دیا تھا۔