ملالہ…ملالہ‘ لیکن عافیہ کہاں گئی؟ : مظفراعجاز
مظفر اعجاز
میں ملالہ کے ساتھ ہوں… جس روز اسکول سے آتی ہوئی بچی پر فائرنگ کی گئی، اس کو گولیاں ماری گئیں، اس کی دو دوستوں کو بھی گولیاں لگیں۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی: پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے دشمنوں نے تین لڑکیوں کو گولی مار دی… یقین کریں اس خبر کو سی این این، بی بی سی اور دوسرے مغربی میڈیا نے پہلے دکھایا اور پھر ہمارا نقلچی یا نقال میڈیا اس سے آگے نکل گیا۔ قرآن، حدیث، مولوی ہر ذریعہ سے یہ بات کہی جانے لگی کہ ملالہ پر حملہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے، یہ کوئی اسلام نہیں وغیرہ وغیرہ… ہم دیکھتے ہیں کہ جب مغرب کو پاکستان میں کسی واقعہ پر بے چینی ہوتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ اور بے چینی کسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جب ملالہ کو گولی لگی تو سب سے زیادہ مغربی میڈیا کو فکر ہوئی۔ اب اگر ہم ملالہ پر حملے کی مذمت نہ کریں تو طالبان کے ساتھی قرار پائیں گے، اور مذمت کریں تو اس سارے ایجنڈے کے مطابق کام کریں گے جو آج جاری ہے۔ یہ ایجنڈا کیا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کو ایک پاکستانی لڑکی کو ایجنڈے کا حصہ بنانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ہم بتاتے ہیں… انہوں نے بیک وقت دو فائدے اٹھائے ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا کو بتادیا کہ دیکھو پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے دشمنوں کے خلاف کروسیڈ کے لیے ہم نے اپنی افواج اتاری تھیں۔ ملالہ کا کیس اُن کے فیصلے کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔ امریکا و برطانیہ میں انسدادِ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے خلاف جذبات ابھر رہے تھے، لوگ سوال کرنے لگے تھے کہ عافیہ صدیقی کو کس جرم میں اغوا کیا گیا، کیوں سزا دی گئی؟ امریکا میں عافیہ صدیقی کے لیے مظاہرے اور ریلیاں ہونے لگی تھیں… لیکن اب وہ اقوام متحدہ کی یوتھ اسمبلی میں ملالہ کا خطاب کرواتے ہیں، بان کی مون اور گورڈن برائون خطاب کرتے ہیں، ملالہ کے تعلیم کے حق کی حمایت کرتے ہیں، اور مغربی میڈیا یہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم مشکل ہے اور وہاں بہت سی لڑکیاں اسی طرح پریشان ہیں۔ ملالہ کو بھی ایک سبق پڑھایا گیا کہ میرا مشن تعلیم کا حصول ہے، قلم میرا ہتھیار ہے۔ جذباتی سی رٹی رٹائی تقریر پاکستان کے تمام اخبارات میں بھی بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ صحافی وغیرہ بھی ملالہ کی سالگرہ منا رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فائدہ مغرب کو یہ ہوا کہ اب لوگ عافیہ کے معاملہ پر ذرا محتاط ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں تو تعلیم کے حصول کے لیے ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوجاتا ہے… اس طرح مغرب نے تو دوہرا فائدہ اٹھالیا۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہمارے میڈیا نے کس کو فائدہ پہنچایا؟ سارا کام دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو جواز بخشنے کے لیے کیا گیا… ہم خوش، میڈیا خوش کہ ان کو پیسے بھی ملے اور زبردست پروگرام بھی ہوگیا۔ لیکن درحقیقت سب نے مل کر ملالہ کو مغرب پر قربان کردیا۔ نظام تعلیم میں انقلاب برپا کرنے والی قید میں، اور ملالہ شہرت کی بلندیوں پر۔
ایک سوال شدت سے اٹھایا جارہا ہے کہ مغرب ملالہ کو کیوں اٹھا رہا ہے اور عافیہ کو کیوں بھلا رہا ہے؟ ملالہ کو ابتدائی تعلیم سے روکنے کی کوشش کے نام پر ہیرو بنایا گیا، اور جس نے دنیا کی سب سے بڑی تعلیم حفظِ قرآن کا حصول کیا، جس نے بچوں کی تعلیم میں انقلاب برپا کرنے کی تعلیم حاصل کی اسے تو امریکا نے بلاجواز قید کر رکھا ہے۔ یہاں عافیہ صدیقی اور ملالہ کا موازنہ کرنا مقصود نہیں، لیکن اب جب کہ ایجنڈا سامنے آچکا ہے تو یہ موازنہ ازخود ہوگا۔ امریکا اور مغرب کی نام نہاد وار آن ٹیرر نے افغانستان، عراق، پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے مسلم ملکوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں ملالائیں پیدا کردیں، ہزاروں اسکول ان کی اس جنگ کی وجہ سے بند ہیں، لاکھوں بچیاں اسکول اور بنیادی تعلیم سے محروم ہوگئیں۔ امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف تنظیمیں بڑے بڑے شہروں میں اچانک اسکول بند کرادیتی ہیں اور ہزاروں بچیوں کو تعلیم سے محروم کردیتی ہیں، لیکن مغرب نے آج تک اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ اور ہمارا میڈیا نام نہاد آزاد ہے۔ وہ عافیہ صدیقی کے حوالے سے تو حقائق تلاش کرتا ہے لیکن ملالہ کے حوالے سے ایک لفظ نہیں کہتا۔ ایک خبر آتی ہے کہ ملالہ پر فائرنگ ہوئی، سر میں گولی لگی ہے۔ دوسری خبر میں اس کی حالت نازک بتائی گئی… ساتھ ہی ایک خبر چلی کہ اس نے اپنے والدین اور دوستوں سے فون پر بات کی۔ اس کی ایک تصویر میں اس کی پیشانی پر پٹی نظر آئی، دوسری تصویر میں پیشانی پر پٹی نہیں تھی۔ اس کے معالجین نے پہلے کہا کہ گولی سر میں لگی ہے، پھر کہا کہ ریڑھ کی ہڈی میں گھسی ہے، پھر ایک حساس آپریشن کی خبر چلی، پھر کہا گیا کہ آپریشن ہوگیا ہے، سر کا آپریشن… جس میں بال نہیں صاف کیے گئے۔ اور عافیہ کے معاملے میں ہمارا آزاد میڈیا یہی کہتا رہا کہ وہ امریکی ہے، وہ سائنس دان ہے، اس کا القاعدہ سے تعلق تھا۔ کچھ تو تھا…وغیرہ وغیرہ۔ ہم کیوں موازنہ نہ کریں! ایک کو مغربی میڈیا صرف اس لیے اٹھا رہا ہے تاکہ مظلوم بن کر سامنے آئے۔ جس کا پورا واقعہ مشتبہ، وہ عالمگیر مظلوم ہے۔ جس کے بارے میں ایک ایک چیز ریکارڈ پر ہے۔ بگرام جیل ہو یا امریکی جیل… مظالم کی طویل داستان کا ذکر میڈیا سے غائب۔ فرق یہ ہے کہ وہ حافظِ قرآن ہے، اور ملالہ کو وہ پڑھایا جائے گا جو وہ پڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا کہ ہم ملالہ کے ساتھ ہیں کیونکہ ملالہ یوسف زئی بھی تو مظلوم ہے، اسے تو پتا ہی نہیں کہ اسے کس طرح اپنے ہی ملک کی بچیوں پر مظالم کرنے والوں نے اپنا ہمنوا بنالیا۔ ہاں میں ملالہ کے ساتھ ہوں۔ اس کا ہتھیار قلم ہے تو اسے آگے بڑھ کر ڈاکٹر عافیہ کی ہتھکڑیاں کھلوا کر ان ہاتھوں میں قلم تھمانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ ملالہ خود سوچے گی تو کل وہ عافیہ رہائی تحریک کا حصہ بنے گی ورنہ اس کی راہ میں رکاوٹ۔ ظلم، ظالم اور مظلوم کی تمیز نہیں ہوگی تو اسی طرح حقائق چھپائے جاتے رہیں گے اور اس میں ہمیشہ کی طرح ہمارا نام نہاد آزاد اور نقال میڈیا مجرم قرار پائے گا۔