ڈرون حملے، ڈاکٹر عافیہ اور موجودہ حکومت: متین فکری
کالم | June 23, 2013
متین فکری
ڈرون حملے جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے ہورہے ہیں بلکہ اسی شخص نے امریکیوں کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ آور ہونے کی اجازت دی تھی اور اس مقصد کے لیے انہیں پاکستان میں ائر بیس بھی فراہم کیا تھا۔ یعنی پاکستان کے وسائل کو ہی پاکستان کی سرزمین کے خلاف استعمال کیا جارہا تھا۔ ہمارا کمانڈو صدر جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا اس صورت حال پر دم سادھے ہوئے تھا۔ اس کے دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان کے بچوں سمیت کراچی سے اغوا کرکے افغانستان پہنچایا گیا لیکن بے حمیت پاکستانی حکمران خاموش رہا بلکہ اس نے اپنی رسوائے زمانہ خود نوشت میں اس بات کا بڑے فخر سے اعتراف کیا کہ وہ کتنے ہی لوگوں کو امریکا کے حوالے کرکے ان کے عوض ڈالر کھرے کرچکا ہے۔ اس لیے اس بزدل اور بے غیرت حکمران سے کسی خیر کی توقع نہ تھی نہ ڈرون حملوں کے حوالے سے نہ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں۔پھر این آر او کے تحت پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت آئی تو وہ امریکا کی وفاداری و تابعداری میں اپنے پیش رو سے بھی چار قدم آگے نکلی اس نے منافقانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے امریکا کو یقین دلایا کہ وہ ڈرون حملے جاری رکھے البتہ حکومت عوامی سطح پر قوم کو مطمئن کرنے کے لیے زبانی احتجاج کرتی رہے گی۔ چنانچہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ زبانی احتجاج بھی ہوتا رہا اور ڈرون حملے بھی پوری شدت سے جاری رہے۔ اس دوران ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان کی عقوبت گاہ سے نکال کر امریکا پہنچایا جاچکا تھا اور وہاں ناکردہ گناہی کے الزام میں ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ پاکستان میں ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ان کی رہائی کے لیے زبردست تحریک چلائی، سول سوسائٹی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی پذیرائی کی۔ اخبارات میں بھی ڈاکٹر عافیہ
کے حق میں مسلسل کالم لکھے گئے لیکن حکومت کے کان پر جو±ں تک نہ رینگی۔ اس تحریک کے دوران امریکی جاسوس ریمنڈڈیوس کا واقعہ پیش آیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ ریمنڈڈیوس کی رہائی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی گلو خلاصی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا ریمنڈڈیوس کے معاملے میں شدید دباﺅ میں تھا اور وہ ہر قیمت پر اسے پاکستان سے لے جانا چاہتا تھا لیکن پاکستانی حکمرانوں کو وطن کی ایک بیٹی کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی انہوں نے اس موضوع پر سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا کردار اس حوالے سے کہیں زیادہ منافقانہ تھا وہ ایک طرف ڈاکٹر عافیہ کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی کو ٹیلیفون پر تسلیاں دیتے رہے دوسری طرف اس کیس کو الجھاتے رہے یہاں تک کہ امریکا کی ایک کنگرو کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ کو جرم بے گناہی میں اسّی سال قید کی سزا سنا دی۔ خود امریکی ماہرین کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی حکام کو ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں ایک خط ان کی رہائی کا سبب بن سکتا تھا لیکن نہ صدر پاکستان نے خط لکھنے کی زحمت گوارا کی نہ وزیراعظم کو اس کی توفیق ہوئی اور نہ سفارتی سطح پر کوئی کوشش بروئے کار لائی گئی۔ پاکستان کی عسکری قیادت سے امریکا کے فوجی حکام بار بار ملاقاتیں کرتے رہے لیکن وطن کی ایک بے گناہ بیٹی کی رہائی کے لیے عسکری قیادت نے بھی اپنا کوئی کردار ادا
نہیں کیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان کی مقتدرقوتوں نے قوم کی بیٹی کے معاملے میں اس قدر سنگدلانہ اور بے حسی پر مبنی رویہ اختیار کیا کہ جس قدر اس کی مذمت کی جائے کم ہے۔
اب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے تو وزیراعظم میاں نواز شریف نے ڈرون حملے کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور پہلی مرتبہ امریکا سے سفارتی سطح پر باضابطہ احتجاج کیا گیا ہے۔ ایک امریکی رکن کانگریس کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس سے پہلے ڈرون حملوں پر کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ اسے ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ وہ خود مبینہ دہشت گردوں کو ٹارگٹ کرسکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکا جن دہشت گردوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بناتا ہے ان کے بارے میں پاکستانی ایجنسیاں ہی امریکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کرتی ہیں۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کا یہ عمل فوجی سطح پر دو طرفہ تعاون کا حصہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف مبینہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے رہے ہیں اور پاک فوج پوری طرح اس میں ملوث ہے اور بڑے پیمانے پر اپنا نقصان کرچکی ہے امریکا اس نقصان کا جو معاوضہ ادا کررہا ہے وہ اس نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ خاص طور پر جانی نقصان کا تو کوئی معاوضہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اب اگر موجودہ منتخب جمہوریت واقعی ڈرون حملے رکوانے میں سنجیدہ ہے اور محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سرگرمی نہیں دکھا رہی تو اسے ساری صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لینا ہوگا اور عسکری قیادت کو نقطہ نظر تبدیل کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا خود جمہوری حکومت کو بھی شرح صدر کے ساتھ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پاکستان کی جنگ نہیں ہے وہ اس پر مسلط کی گئی ہے اور اس کا واحد مقصد پاکستان کو غیر مستحکم اور
پریشان حال رکھنا ہے۔ موجودہ حکومت اگر ڈرون حملے رکوانا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے خود کو الگ کرنا ہوگا پھر عالمی رائے عامہ کی تائید سے اقوام متحدہ میں اپنا کیس لڑنا ہوگا اس وقت ڈرون حملوں کے خلاف عالمی سطح پر پاکستان کی حمایت پائی جاتی ہے لیکن ہم اسے مسلسل نظر انداز کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سابقہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں مجرمانہ کوتاہی کی مرتکب رہی ہے اس نے قوم کی ایک مظلوم بیٹی کو غیروں کے چنگل سے چھڑانے اور اسے ظلم وناانصافی سے نجات دلانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب موجودہ حکومت کو اس حوالے سے اپنا فرض مستعدی سے ادا کرنا چاہیے۔ پوری دنیا اس حقیقت کو سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو محض جرم بے گناہی کی سزا دی گئی ہے اور جس امریکی عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دیا ہے اس نے قانون کے کسی تقاضے کو پورا نہیں کیا۔ اگر سرکاری سطح پر اس کیس کو پورے استدلال کے ساتھ امریکی حکام کے سامنے دوبارہ اٹھایا جائے اور وزیراعظم ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے مثبت نتائج سامنے نہ آئیں۔
ڈرون حملے اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ موجودہ حکومت کے لیے ٹسٹ کیس کا درجہ رکھتے ہیں۔ بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ حکومت کتنے پانی میں ہے اور اسے قومی مفاد سے کتنی دلچسپی ہے۔