یوم تکبیر، ایٹمی قوت، ایٹمی دل
…مظفراعجاز…
اب سے ٹھیک 15سال قبل پاکستان دنیا کی ساتویں باضابطہ ایٹمی طاقت بن گیا تھا۔ لیکن جب سے ایٹمی قوت بنا ہے یہ ایٹم بم پاکستانی حکومتوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ فوجی حلقے اس ایٹم بم کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور معاشی ترقی کے دلدادہ اور دعویدار اس سے جان چھڑانے پر راضی… اب گردشِ ایام نے ایٹمی دھماکے کرنے والے میاں نواز شریف کو پھر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پہنچانے کا انتظام کردیا ہے، لیکن ایٹمی قوت بننے کے پہلے اور بعد کے حالات بہت مختلف ہیں۔ ایٹمی قوت بننے سے قبل پاکستان معاشی قوت بننے جارہا تھا (بقول نواز شریف)، اس سے قبل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف اٹھنے والی آنکھیں پھوڑ دی جاتی تھیں، ایٹمی تنصیبات تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے سفارت کاروں کی کمبل ک±ٹ لگائی جاتی تھی۔ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے لیے نہایت سخت انتظامات تھے۔ اور ایٹمی ہیرو، ہیرو تھا۔ لیکن ایٹمی دھماکے کے چار سال بعد ایٹمی ہیرو مشتبہ اور 6 سال بعد عذار قرار پایا۔ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی کے لالے پڑگئے اور ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ پاکستان نہ ایٹمی قوت کی طرح دنیا سے معاملات کرسکتا تھا اور نہ معاشی قوت کی طرح سراٹھا کر چل سکتا تھا۔ اور ایٹمی قوت بننے کے 5 سال بعد 2003ئ میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستانی حکام نے خود امریکا کے حوالے کردیا… 2002ئ کے بعد 2008ئ میں پھر انتخابات ہوئے، دس سال نام نہاد عوامی نمائندوں نے حکومت کی، لیکن عوام کی آواز کہیں نہیں سنائی دی… عافیہ کی آواز کو دبا دیا گیا۔ دس سال تک قوم کو یہ سمجھنے ہی نہیں دیا گیا کہ عافیہ پاکستانی ہے یا امریکی شہری۔ ہمارا بکاﺅ میڈیا اور حقائق سے ناواقف ٹی وی اینکرز اس کے کیس کو بگاڑتے ہی رہے۔ آج دس سال سے زیادہ ہوگئے، ایٹمی قوت پاکستان کی بیٹی دشمنوں کی قید میں ہے۔ اس پر یکطرفہ مقدمہ چلایا گیا، اسے بے معنی قسم کی سزا سنائی گئی، لیکن ہمارے ایٹمی قوت کے حکمران چپ بیٹھے رہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جون 2010ئ تک یہی سمجھتے رہے کہ عافیہ امریکی شہری ہے… لیکن جب پتا چل گیا پھر بھی کچھ نہیں کرسکے۔ کیونکہ ملک ایٹمی قوت ضرور ہے لیکن حکمرانوں کے دل چوہے کے دل کی طرح ہیں۔ جب ملک کا حکمران جنرل پرویزمشرف ہی قوم کو ڈرا رہا ہو کہ اگر امریکا کی نہیں مانو گے تو امریکا تمہارا تورابورا بنادے گا… اور پاکستانی قوم نے دیکھا کہ اپنی بیٹی کو بیچنے والے حکمران نے امریکی حکومت کی ہر شرط مان لی اور ملک کو تورابورا بھی بنادیا۔ حقیقی معنوں میں پتھر کے دور میں بھیج دیا۔ 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی اسی زمانے سے ملا ہے۔
معیشت اپنی نہیں رہی، جغرافیائی حدود اپنی نہیں رہیں، جب امریکی ڈرون چاہتے ہیں ملک میں درآتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں بم مارتے ہیں۔ امریکی جس کو چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ا±ن کا شہری سڑک پر دو قتل کرتا ہے، اس کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور پاکستانی شہری ثنائ اللہ اگر غلطی سے مویشی چراتا ہوا بھارتی سرحد کے اندر داخل ہوجائے تو اسے نہیں چھڑا سکتے۔ آج ایٹمی قوت بننے کے 15 سال بعد پاکستان کو بیرون ملک سے گیس چاہیے، پیٹرول چاہیے، کبھی کبھی گندم اور شکر بھی چاہیے۔ پاکستان پتھر کے دور میں نہیں تو اور کس دور میں ہے! پانی، بجلی، گیس، پیٹرول کا بحران ہے… امن وامان تباہ ہے… اور امریکا پاکستان کو مشورہ دے رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کے بغیر ممکن نہیں۔ یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر پاکستان کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط رکھو۔ میاں نوازشریف بھی جیتنے کے فوراً بعد یہی کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ روابط رکھیں گے۔ آنے والے دن پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا سہرا اپنے سر باندھنے والے میاں نوازشریف کے لیے کڑے امتحان کے دن ہوں گے، انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان وقار کے ساتھ جی سکتا ہے، اس کو کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔ کیا وہ پاکستان کا وقار بحال کراسکیں گے؟ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو واپس لاسکیں گے؟ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں گے؟ پاکستان گیس لائن منصوبوں، گوادر، ایرانی پیٹرول، چین کے ساتھ روابط وغیرہ میں امریکی ڈکٹیشن کی پروا نہیں کریں گے…؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے جو آج ہمیں عافیہ کی دعا کی صورت میں موصول ہوا ہے:
”اے اللہ پاکستانی حکمرانوں کو ایٹم بم کے ساتھ ایٹمی (جوہری) دل بھی عطا فرما، تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرسکیں۔“ عافیہ
اب سے ٹھیک 15سال قبل پاکستان دنیا کی ساتویں باضابطہ ایٹمی طاقت بن گیا تھا۔ لیکن جب سے ایٹمی قوت بنا ہے یہ ایٹم بم پاکستانی حکومتوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ فوجی حلقے اس ایٹم بم کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور معاشی ترقی کے دلدادہ اور دعویدار اس سے جان چھڑانے پر راضی… اب گردشِ ایام نے ایٹمی دھماکے کرنے والے میاں نواز شریف کو پھر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پہنچانے کا انتظام کردیا ہے، لیکن ایٹمی قوت بننے کے پہلے اور بعد کے حالات بہت مختلف ہیں۔ ایٹمی قوت بننے سے قبل پاکستان معاشی قوت بننے جارہا تھا (بقول نواز شریف)، اس سے قبل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف اٹھنے والی آنکھیں پھوڑ دی جاتی تھیں، ایٹمی تنصیبات تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے سفارت کاروں کی کمبل ک±ٹ لگائی جاتی تھی۔ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے لیے نہایت سخت انتظامات تھے۔ اور ایٹمی ہیرو، ہیرو تھا۔ لیکن ایٹمی دھماکے کے چار سال بعد ایٹمی ہیرو مشتبہ اور 6 سال بعد عذار قرار پایا۔ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی کے لالے پڑگئے اور ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ پاکستان نہ ایٹمی قوت کی طرح دنیا سے معاملات کرسکتا تھا اور نہ معاشی قوت کی طرح سراٹھا کر چل سکتا تھا۔ اور ایٹمی قوت بننے کے 5 سال بعد 2003ئ میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستانی حکام نے خود امریکا کے حوالے کردیا… 2002ئ کے بعد 2008ئ میں پھر انتخابات ہوئے، دس سال نام نہاد عوامی نمائندوں نے حکومت کی، لیکن عوام کی آواز کہیں نہیں سنائی دی… عافیہ کی آواز کو دبا دیا گیا۔ دس سال تک قوم کو یہ سمجھنے ہی نہیں دیا گیا کہ عافیہ پاکستانی ہے یا امریکی شہری۔ ہمارا بکاﺅ میڈیا اور حقائق سے ناواقف ٹی وی اینکرز اس کے کیس کو بگاڑتے ہی رہے۔ آج دس سال سے زیادہ ہوگئے، ایٹمی قوت پاکستان کی بیٹی دشمنوں کی قید میں ہے۔ اس پر یکطرفہ مقدمہ چلایا گیا، اسے بے معنی قسم کی سزا سنائی گئی، لیکن ہمارے ایٹمی قوت کے حکمران چپ بیٹھے رہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جون 2010ئ تک یہی سمجھتے رہے کہ عافیہ امریکی شہری ہے… لیکن جب پتا چل گیا پھر بھی کچھ نہیں کرسکے۔ کیونکہ ملک ایٹمی قوت ضرور ہے لیکن حکمرانوں کے دل چوہے کے دل کی طرح ہیں۔ جب ملک کا حکمران جنرل پرویزمشرف ہی قوم کو ڈرا رہا ہو کہ اگر امریکا کی نہیں مانو گے تو امریکا تمہارا تورابورا بنادے گا… اور پاکستانی قوم نے دیکھا کہ اپنی بیٹی کو بیچنے والے حکمران نے امریکی حکومت کی ہر شرط مان لی اور ملک کو تورابورا بھی بنادیا۔ حقیقی معنوں میں پتھر کے دور میں بھیج دیا۔ 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی اسی زمانے سے ملا ہے۔
معیشت اپنی نہیں رہی، جغرافیائی حدود اپنی نہیں رہیں، جب امریکی ڈرون چاہتے ہیں ملک میں درآتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں بم مارتے ہیں۔ امریکی جس کو چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ا±ن کا شہری سڑک پر دو قتل کرتا ہے، اس کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور پاکستانی شہری ثنائ اللہ اگر غلطی سے مویشی چراتا ہوا بھارتی سرحد کے اندر داخل ہوجائے تو اسے نہیں چھڑا سکتے۔ آج ایٹمی قوت بننے کے 15 سال بعد پاکستان کو بیرون ملک سے گیس چاہیے، پیٹرول چاہیے، کبھی کبھی گندم اور شکر بھی چاہیے۔ پاکستان پتھر کے دور میں نہیں تو اور کس دور میں ہے! پانی، بجلی، گیس، پیٹرول کا بحران ہے… امن وامان تباہ ہے… اور امریکا پاکستان کو مشورہ دے رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کے بغیر ممکن نہیں۔ یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر پاکستان کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط رکھو۔ میاں نوازشریف بھی جیتنے کے فوراً بعد یہی کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ روابط رکھیں گے۔ آنے والے دن پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا سہرا اپنے سر باندھنے والے میاں نوازشریف کے لیے کڑے امتحان کے دن ہوں گے، انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان وقار کے ساتھ جی سکتا ہے، اس کو کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔ کیا وہ پاکستان کا وقار بحال کراسکیں گے؟ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو واپس لاسکیں گے؟ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں گے؟ پاکستان گیس لائن منصوبوں، گوادر، ایرانی پیٹرول، چین کے ساتھ روابط وغیرہ میں امریکی ڈکٹیشن کی پروا نہیں کریں گے…؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے جو آج ہمیں عافیہ کی دعا کی صورت میں موصول ہوا ہے:
”اے اللہ پاکستانی حکمرانوں کو ایٹم بم کے ساتھ ایٹمی (جوہری) دل بھی عطا فرما، تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرسکیں۔“ عافیہ