نہتی لڑکی — محمد ابراہیم عزمی
نہتی لڑکی
محمد ابراہیم عزمی
حبیب جالب نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں نظم لکھتے ہوئے انہیں ’’ نہتی لڑکی‘‘ قرار دیا تھا۔ آج ہمارے کالم کا عنوان کوئی اور لڑکی ہے۔ یہ لڑکی بے نظیر بھٹو سے بھی زیادہ نہتی ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ اس کے دشمن بی بی کے دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ لڑکی پچھلے 10 برسوں سے بہت زیادہ خطرناک حریفوں سے مقابلہ کرہی ہے۔ آئیے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی کتنی نہتی تھیں اور ان کے دشمن کتنے زور آور تھے۔ اس تجزیئے کے بعد ہم کہہ سکیں گے کہ واقعی اکیسویں صدی کی یہ لڑکی بہت ہی بہادر ہے۔ پہلے بے نظیر کی جنگ پھر اسی دوسری لڑکی کا قصہ کہ وہ واقعی نہیں ہے۔
بے نظیر بھٹو 5 جولائی کو اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس میں تھیں جب ان کے والد کو اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ چند ہفتوں کی رہائی کے بعد پھر گرفتاری اور پھر مقدمہ قتل، ہائی کورٹ سے والد کو پھانسی کی سزا اور سپریم کورٹ پر اپیل سے 18 ماہ کی طویل قانونی جنگ کے بعد حتمی فیصلہ۔ آخری ملاقات کی کربنائی تدفین کی اہم ناکی اور پھر جلاوطنی۔ انتہائی خوشحال زندگی، اقتدار کے خاتمے دن بدن، کمزور ہوتے والد کو دیکھنا اور پارٹی ہمدردوں کو دلاسے دینا۔ یورپ کی آزاد فقائوں سے مارشل لا کی گھڑ تک، سب کچھ بے نظیر کو جھیلنا پڑا۔ شاہنواز کی تدفین کے بعد پھر جلاوطنی۔ اپریل 86میں دوبارہ آمد اور پارٹی کی تنظیم پاکستان میں ڈھائی سال گزار نے اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بننے تک ۔ یہ ہے حیرت انگیز تاریخ بے نظیر بھٹو کی، جنہیں حبیب جالب جیسے بڑے شاعر نے ضیا مارشل لا کے مقابل نہتی لڑکی قرار دیا تھا۔ یاد رکھیے! آج کسی اور لڑکی کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔
نہتی لڑکی جس کے بارے میں ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ بے نظیر کے مقابلے میں کم مسئلے ہے اور جس کے دشمن، بے نظیر کے دشمنوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ ہمارے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر ستر اور اسی کے عشروں میں بے نظیر کو دیکھنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بی بی اور ان کے حریفوں کی جنگ کس نوعیت کی تھی۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ آج ایک اور لڑکی جو جنگ لڑرہی ہے، وہ حیرت انگیز ہے یا نہیں۔ اگر آج حبیب جالب زندہ ہوتے تو اس کمزور، دبلی پتلی اور نہتی لڑکی کے لیے کیا لکھتے؟
بے نظیر بھٹو کے والد پاکستان کے مارشل لا حکام کی قید میں تھے۔ ان کی حکومت کی کوئی آئینی حیثیت نہ تھی۔ دنیا فوجی جنرلوں کو جائز حکمران نہیں مان رہی تھی۔ اخلاقی، معاشی اور قانونی اعتبار سے ضیا حکومت کمزور تھی کہ اس وقت تک روس افغانستان میں داخل نہیں ہوا تھا۔ سو ویت ؟؟ دسمبر 79میں مداخلت کا فراوار ہوا اور بھٹو صاحب کو پھانسی اس سے آٹھ ماہ قبل دی جاچکی تھی۔ بھٹو صاحب، ایوب دور کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانے پہنچانے جاتے تھے۔ یہ دوسری برتری ہے جو بے نظیر کو آج کی نہتی لڑکی کے مقابل حاصل ہے۔ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے طور پر دنیا کے کئی حکمران، بھٹو صاحب کے ذاتی دوست تھے۔ ضیا حکومت پر دنیا بھر کی حکومتوں کا دبائو تھا کہ انہیں رہا کر دے یا جلاوطن۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں بھائی ملک سے باہر ہونے کے سبب سفارتی محاذپر بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے کوشاں تھے۔ یوں بے نظیر بھٹو اپنے والد کی رہائی کی مہم چلانے میں تنہا نہ تھیں۔ آج ہم جس نہتی لڑکی کے بارے میں تلفے جا رہے ہیں وہ تن تنہا ایک بڑی مہم چلا رہی ہے۔ شاید بے نظیر نہ ہوتیں تب بھی جمہوری جدوجہد جاری رہتی لیکن آج ہم جس لڑکی کے بارے میں بات کررہے ہیں، اگر وہ نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔
بے نظیر بھٹو اپنے والد کی قید کے خلاف مہم 7 کروڑ عوام کے ملک کے حکمرانوں کے خلاف چلا رہی تھیں۔ آج ہم جس لڑکی کی مہم کی بات کررہے ہیں وہ پاکستان سے آبادی میں آج بھی کہیں بڑا ہے۔ بے بظیر بھٹو کی مہم ایک غریب اور ترقی پزیر ملک کے حکمرانوں کے خلاف تھی۔ آج ہم جس لڑکی کی بات کررہے ہیں وہ اپنی مہم ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک کے خلاف چلارہی ہے، یہ دوسری بات ہے، بے نظیر جن حکمرانوں سے ٹکرا رہی تھیں ان کا اقتدار ناجائز تھا۔ وطن کی یہ بیٹی جس کی جدوجہد، آج ہمارا عنوان ہے، وہ اپنی قوم کے منتخب نمائندے ہیں۔ پاکستان کے وہ حکمران جن کی قید میں بھٹو صاحب تھے، وہ دنیا بھر میں غیر مقبول تھے۔ کوئی ان سے ملنے اور دوستی کو تیار نہ تھا۔ آج کی ایک پاکستانی لڑکی جن سے لڑرہی ہے، پوری دنیا ان کی دوستی کو تسرتی ہے۔ یہ چوتھی بات ہے، واقعی آج ایک کمزور لڑکی تن تنہا اپنے خونی رشتے کو انصاف دلانے کے لیے کوشش کررہی ہے۔ بی بی کی طرح۔
بھٹو صاحب کو قید سے قبل بیس برسوں سے دنیا جانتی تھی۔ ان کو جیل میں ڈالا جانا ایک بین الاقوامی خبر تھی۔ جبکہ آج جس لڑکی کی ہم بات کررہے ہیں اس کی بہن کوئی سابقہ حکمران نہیں جس کی طرف دنیا لپکے۔ چھٹی بات یہ کہ جو رشتہ باپ بیٹی کے درمیان ہوتا ہے وہ شاید بہن بہن کے درمیان نہ ہو۔ ساتویں بات یہ کہ بے نظیر کی پشت پر پیپلز پارٹی جیسی مقبول سیاسی جماعت تھی۔ آج اس لڑکی کو اپنی بہن کو رہا کروانے کے لیے ایسا کوئی بڑا سیاسی سہارا میسر نہیں۔ بے نظیر کے پاس وسائل کی کمی نہ تھی، جو ہماری اس بہن کو درپیش ہے۔ نویں بات یہ کہ اس لڑکی کا کوئی ایسا بھائی نہیں جو قیدی بنی اپنی بہن کی رہائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوئی مہم چلا سکے۔ مرتضیٰ نے جہاز اغوا کرکے بھٹو صاحب کے مقدمے کو بین الاقوامی طور پر شہرت عطا کر دی تھی۔ دسویں بات یہ کہ بھٹو صاحب پر اپنے ہم وطن کو قتل کرنے کا الزام تھا اور وہ اپنے وطن میں اور اپنی عدالتوں کے سامنے تھے۔ یہ لڑکی جو مہم چلا رہی ہے۔ اس کی بہن پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے وہ وطن سے ہزاروں میل دور غیروں کی عدالت اور غیروں کی جیل میں ہے۔
کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے وہ نہتی لڑکی؟ جی نہیں۔ وہ تو امریکا کی قید میں 86 سال کی سزا بھگت رہی ہے۔ ہماری آج کی نہتی لڑکی، قوم کی بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہے، جو اپنی بہن کی قید کے خلاف پچھلے 10 برسوں سے دنیا کی واحد سپر طاقت امریکا کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد واقعی تاریخی تھی اور جالب نے ان کے بارے میں سچ لکھا تھا۔ کیا خیال ہے کون ہے صحیح معنوں میں نہتی لڑکی۔ کیا ہم ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو کہہ سکتے ہیں۔ ایکسویں صدی کی نہتی لڑکی۔
Published Daily jasarat on 26th September 2012